ڈاکٹر اسدمصطفیٰ
چاک سینے کو کریں داغ دکھانے لگ جائیں
تیرے تحفوں سے، ترے ہوش ٹھکانے لگ جائیں
سامنے آئے تو ہم اس کو بٹھا کر دیکھیں
دیکھتے ، دیکھتے، پھر ہم کو زمانے لگ جائیں
جس کی آنکھوں میں فروزاں ہیں محبت کے چراغ
اس کی آنکھیں مجھے دیکھیں تو بلانے لگ جائیں
لوٹ جائیں کبھی بچپن کی حسیں لمحوں میں
کاغذی کشتیاں پانی میں چلانے لگ جائیں
میری تنہائی کے ساتھی تیرے کچھ پھول،خطوط
کیسے ممکن ہے انہیں دل سے بھلانے لگ جائیں
کاش آ جائے میسر کوئی ایسا لمحہ
دل گرفتہ بھی بہت ہنسنے ہنسانے لگ جائیں
مجھ کو سب کچھ ہے ملا ماں کی دعاوٴں کے طفیل
عین ممکن ہے مرے ہاتھ خزانے لگ جائیں
کیسے مزدور ہیں یہ میرے وطن کے بچے
کھیلنے کھانے کے دن ہوں تو کمانے لگ جائیں
درد کا رشتہ اگر مدنظر ہو اپنے
روٹھنا چھوڑ کے بس ملنے ملانے لگ جائیں
ایک پل بھی اسے ناراض نہیں کر سکتے
وہ اگر روٹھ کے جائے تو منانے لگ جائیں