سعیداشعرؔ
ہم ایسے اونٹوں کی پشتوں پر بیٹھے ہیں
جن کی ٹانگیں ٹیڑھی ہیں
جن کے کوہانوں میں سے
ساری چربی پگھل چکی ہے
جن کے معدوں میں
پانی کی آخری بوندیں ہیں
جن کی بینائی
صحرا کی ریت نے گروی رکھ لی ہے
جن لفظوں کو ہم نے تھوکا ہے
وہ آسمانوں کی وسعت میں کھونے کے بجائے
واپس آ گئے ہیں
یہ زمیں ان کا بوجھ اٹھانے سے انکاری ہے
وہ کنکر بن کے
ہمارے جسموں کو بھوسہ بنا سکتے ہیں
اک جانب زردی مائل پانی کی ندیا ہے
جس میں سورج ڈوب رہا ہے
ہم اس بستی کے باسی ہیں
جس کے قبرستان کے مردے
راتوں کو اٹھ اٹھ کر
بستی کی جانب منہ کر کے
اپنی ننگی رانوں سے
کیڑے چنتے ہیں
ہم لوگوں کے گھروں میں
چائے کی پتی اور نمک
اکثر نہیں ہوتا
ہم آہٹ پڑھ کے آنے والے کا شجرہ
اور اس کا منصب
دیوار پہ لکھ سکتے ہیں
"دیکھو، اس بستی میں مت جانا”
سعید اشعرؔ