نظم

میرے ساتھ چلو گی : سعید اشعرؔ

سعید اشعر
سعید اشعرؔ
کیلے کے پتوں پر
کھانا رکھ کے
اب بھی کھایا جاتا ہے
اک مہنگے ہوٹل میں
جس کی دیواروں پر
جنگل کی تصویریں ہیں
مجھ کو اک اصلی جنگل کا
خفیہ رستہ معلوم ہوا ہے
جس کے پیڑوں پر
میٹھے پھل آتے ہیں
فضاؤں میں
رنگ برنگی پنچھی
اڑتے ہیں
ہرنی کے بچے چوکڑیاں بھرتے ہیں
اک چشمہ ہے
جس کا پانی شیشے جیسا ہے
ندیا میں
مچھلی کی کثرت ہے
"میرے ساتھ چلو گی
تمھیں جنگل اچھا لگتا ہے نا”

km

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

نظم

ایک نظم

  • جولائی 11, 2019
       از : یوسف خالد اک دائرہ ہے دائرے میں آگ ہے اور آگ کے روشن تپش آمیز
نظم

آبنائے

  • جولائی 13, 2019
         اقتدارجاوید آنکھ کے آبنائے میں ڈوبا مچھیرا نہ جانے فلک تاز دھارے میں گاتی ‘ نہاتی