سعید اشعرؔ
کیلے کے پتوں پر
کھانا رکھ کے
اب بھی کھایا جاتا ہے
اک مہنگے ہوٹل میں
جس کی دیواروں پر
جنگل کی تصویریں ہیں
مجھ کو اک اصلی جنگل کا
خفیہ رستہ معلوم ہوا ہے
جس کے پیڑوں پر
میٹھے پھل آتے ہیں
فضاؤں میں
رنگ برنگی پنچھی
اڑتے ہیں
ہرنی کے بچے چوکڑیاں بھرتے ہیں
اک چشمہ ہے
جس کا پانی شیشے جیسا ہے
ندیا میں
مچھلی کی کثرت ہے
"میرے ساتھ چلو گی
تمھیں جنگل اچھا لگتا ہے نا”