ڈاکٹر اسحاق وردگ
بَچپَن کے دِنوں میں
شَام سَمے
شہر کِی تَنگ گَلیوں میں
بَہت پہلے
چِڑیوں کو بَدحَواسی میں
کِسی خَواب گَاہ کی
تَلاش میں بِجلی کے
تاروں پر ایک پَتھر لگنے
سے پہلے
بیٹھے دیکھ کر
میں دل کی دَرخواست پر
آسمان کِی سَمت دیکھتا تھا
اے اوپر والے!
مجھے اِتنی توفیق دے
کہ میں کِسی گھنے درخت کو
گود لے سَکوں
ایسا زَرخیز درخت
جو مَمتا کا اِستعارَہ ہو جس کی
سَرسَبز بانہوں میں سَارے پَرندے سکون کی تَروتازہ نیند لے سکیں..
وہ دُعا کبھی بھی مَقبول نہ ہو سکی
شاید
کِسی چڑیا کو لگنے والا
پَتھر اِس دعا سے
ٹکرایا ہو
یا پھر کسی نے یہ
فَتوی دیا ہو
کہ درخت گود لینا
حَرام ہے
اور پھر تَذبذب میں یہ دُعا
اِلتوا کے خَانے
میں ڈال دی گئی ہو.۔۔۔