غزل

غزل : ستیہ پال آنند


ستیہ پال آنند
وہ مرکزہ تھا کہ شاید سبب تھا اےآنند
کہ اختتام بھی جس کاغضب تھا اے آنند
جنم جنم سے ترا  ایک ہی مقدر ہے
تو ایک موتی درون ِ صدف تھا اے آنند
وہ رنگ اب بھی مرے دل میں خون روتا ہے
وہ رنگ جو کبھی تزئین ِ لب تھا اے آنند
خدا گواہ کہ میں بھی تو ابن ِ مریم تھا
میں صرف مشت ِ کف ِ خاک کب تھا اے آنند
ملا تھا نطق تو پھر بولنا ضروری تھا
سبب ِ اولیٰ تو جملہ بلب تھا اے آنند
گناہ جو بھی ہوئے تجھ سے،سب معاف ہوئے
ترا گواہ تو بس ایک رب تھا اے آنند

km

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

غزل

غزل

  • جولائی 12, 2019
شاعر : خورشید ربانی غم نہیں غم آفریں اندیشہ  ہے آئینے  میں جاگزیں  اندیشہ  ہے موجہِ  گرداب  تک تھے  ایک
Poetry غزل

غزل … ڈاکٹرخورشید رضوی

  • جولائی 16, 2019
ڈاکٹرخورشید رضوی دل  کو  پیہم    وہی  اندوہ  شماری   کرناایک ساعت کوشب و روز پہ طاری کرنا اب وہ  آنکھیں