راز احتشام
تنہا سفر ہو، رات ہو، بجلی کڑک اٹھے
جنگل میں کوئی آگ اچانک بھڑک اٹھے
چپ چاپ سرسراتی ہوئی جا رہی تھی رات
آہٹ ہوئی گلی میں تو سینے دھڑک اٹھے
اک فتح کا غبار تھا چہروں پہ اور ہم
مقتل پہ ایک رنگِ ہزیمت چھڑک اٹھے
آباد ہو رہا ہے جہانِ خرد ، مگر
کیا جانیے کہ کب رگِ وحشت پھڑک اٹھے
دل جن پہ مطمئن تھا وہ آتش مزاج لوگ
اک دن ذرا سی بات پہ یکدم بھڑک اٹھے