غزل

غزل : سعید اشعرؔ

سعید اشعر
سعید اشعرؔ
آگ  جلتی رہی  کنارے  پر
خواب دریا کے تیز دھارے پر
زندگی اس طرح گزاری ہے
سوکھی لکڑی ہو جیسے آرے پر
کس تمنا سے ایک دن ہم نے
نام تیرا لکھا سپارے پر
حادثے عام طور پر دیکھے
تیرے رستے کے اک اشارے پر
اس نے دیکھا جو آسماں کی طرف
تیر پھینکا ہے اک ستارے پر
اس کی آنکھوں میں ایک گلشن تھا
ایک پنچھی کے جب اتارے پر
ہم محبت میں جان دیتے ہیں
بات ہوتی رہے خسارے پر
اڑ کے جانا تھا اس کی محفل میں
روشنی سے لیے ادھارے  پر
میں نے باندھا ہے خود کو جنگل میں
شیر  آنے  لگا  ہے  چارے  ہر

km

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

غزل

غزل

  • جولائی 12, 2019
شاعر : خورشید ربانی غم نہیں غم آفریں اندیشہ  ہے آئینے  میں جاگزیں  اندیشہ  ہے موجہِ  گرداب  تک تھے  ایک
Poetry غزل

غزل … ڈاکٹرخورشید رضوی

  • جولائی 16, 2019
ڈاکٹرخورشید رضوی دل  کو  پیہم    وہی  اندوہ  شماری   کرناایک ساعت کوشب و روز پہ طاری کرنا اب وہ  آنکھیں