نائلہ خاور
وقت کی رہگزاروں پر
بہت سے موڑ پڑتے ہیں
دلوں کی سر زمینوں پر
کئی موسم مچلتے ہیں
کئی دلکش حسیں منظر
سنہرا دھندلکا موسم
یا پھر کوئی صبیح لمحہ
ہماری راہ میں آ کر
ہمیں کو آزماتا ہے
ہمارے خواب آنکھوں میں
کٸ دیے جلاتے ہیں
ہماری خواہشوں کے ہات
ان کی لو بڑھاتے ہیں
مگر یہ ضبط کا موسم
محافظِ رنگ و گل موسم
ہوائے خرد پھیلا کر
گھروندے توڑ جاتا ہے
دلِ نادان اس پر پھر
بہت روتا مچلتا ہے
مگر اس بے خبر کو کیا خبر
یہاں تو یوں بھی ہوتا ہے
کہ شہرِ آرزو کو
سامنے موجود پا کر بھی
فصیلِ شہر کے باہر سے
واپس لوٹنا پڑتا ہے
سب کچھ حد میں پا کر بھی
ہمیں خود اپنی مرضی سے
بہت کچھ چھوڑنا پڑتا
بہت کچھ کھونا پڑتا ہے
یہاں تو یوں بھی ہوتا ہے