سعید اشعر
آنسو جتنے بھی کھارے ہو جائیں
تیزاب نہیں بن سکتے
آٹے میں نمک نہ ملاؤ تو روٹی پھیکی بنتی ہے
آوازوں سے
کانوں کے پردے تو پھٹ سکتے ہیں
لیکن دیواروں پر رکھی چھت قائم رہتی ہے
بھینسا کتنا بھی موٹا تازہ ہو
دس شیروں کے آگے بکری بن جاتا ہے
بکری کا اک بچہ
ریوڑ کے اندر ہی زندہ رہ سکتا ہے
زخمی ناگ چیونٹی سے چھوٹا پڑ جاتا ہے
جبر کے آگے
دریا اپنی مرضی کھو دیتا ہے
پانی کا رخ پیچھے کی جانب مڑ جاتا ہے
گدلے پانی میں جھاگ تو بنتی ہے
عکس نہیں بنتا
تم جو چاہو تو
آنکھوں میں آنسو کم ہو سکتے ہیں
ہم کڑوے لفظوں سے چھٹکارا حاصل کر سکتے ہیں
چھوٹا سا اک پانی کا برتن
کھڑکی میں رکھا ہو تو
کوئی پرندہ
کبھی اتر سکتا ہے
گلدان میں رکھے پھول اور پتے
تنہائی کم کرتے ہیں
تم جو چاہو تو
ہم اک دوجے کی حدت سے
سردی کی شدت کم کر سکتے ہیں