خالدعلیم
کاندھوں سے اُترکرباپ کے وہ، پہلومیں کھڑے ہوجاتے ہیں
جب بچے بولنے لگ جائیں ، خاموش بڑے ہو جاتے ہیں
کھانے کی میز پہ برتن بھی جب سونا چاندی بن جائیں
آخر شو کیس کی آرایش مٹی کے گھڑے ہو جاتے ہیں
ان لوگوں کا کیا پوچھتے ہو، یہ لوگ ہیں نچلی بستی کے
مٹّی کے ساتھ ہی یہ مٹّی ، مٹّی میں پڑے ہو جاتے ہیں
جن شہروں کی آبادی میں احساس کی کوئی رِیت نہ ہو
ان شہروں پر ویرانی کے میدان کھڑے ہو جاتے ہیں
اولاد جواں جب ہو جائے، سوچا ہے کبھی ان بوڑھوں پر
جو دن اُن کے آرام کے ہیں، کیوں اُن پہ کڑے ہو جاتے ہیں
خالد یہ باتیں ٹھیک نہیں، اتنا نہ الجھ تُو لوگوں سے
صرف اپنے بڑوں کے مرنے سے کچھ لوگ بڑے ہوجاتے ہیں
( خالد علیم)