Poetry غزل

غزل

          خالدعلیم

کاندھوں سے اُترکرباپ کے وہ، پہلومیں کھڑے ہوجاتے ہیں
جب بچے بولنے لگ جائیں ، خاموش بڑے ہو جاتے ہیں


کھانے کی میز پہ برتن بھی جب سونا چاندی بن جائیں
آخر شو کیس کی آرایش مٹی کے گھڑے ہو جاتے ہیں


ان لوگوں کا کیا پوچھتے ہو، یہ لوگ ہیں نچلی بستی کے
مٹّی کے ساتھ ہی یہ مٹّی ، مٹّی میں پڑے ہو جاتے ہیں


جن شہروں کی آبادی میں احساس کی کوئی رِیت نہ ہو
ان شہروں پر ویرانی کے میدان کھڑے ہو جاتے ہیں

اولاد جواں جب ہو جائے، سوچا ہے کبھی ان بوڑھوں پر
جو دن اُن کے آرام کے ہیں، کیوں اُن پہ کڑے ہو جاتے ہیں

خالد یہ باتیں ٹھیک نہیں، اتنا نہ الجھ تُو لوگوں سے
صرف اپنے بڑوں کے مرنے سے کچھ لوگ بڑے ہوجاتے ہیں
( خالد علیم)

km

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

غزل

غزل

  • جولائی 12, 2019
شاعر : خورشید ربانی غم نہیں غم آفریں اندیشہ  ہے آئینے  میں جاگزیں  اندیشہ  ہے موجہِ  گرداب  تک تھے  ایک
Poetry غزل

غزل … ڈاکٹرخورشید رضوی

  • جولائی 16, 2019
ڈاکٹرخورشید رضوی دل  کو  پیہم    وہی  اندوہ  شماری   کرناایک ساعت کوشب و روز پہ طاری کرنا اب وہ  آنکھیں