نیلما ناہید درانی
اکادمی ادبیات اسلام آباد کی کانفرنس ۔۔۔۔۔۔ پروین شاکر سے پہلی اورآخری ملاقات
فخر زمان ایک درسگاہ کا نام ھے۔۔۔۔ وہ جب اکادمی ادبیات کے چئیرمین تھے۔۔۔انھوں نے بہت بڑی اور شاندار ادبی کانفرنسیں کروائیں۔
صوفی شعرا اور علاقآئی زبانوں کی کتابوں اور شاعروں ادیبوں کی کتابوں کے مختلف زبانوں میں تراجم کروائے۔۔۔۔انہی کے زمانے میں اکادمی ادبیات پاکستان اسلام آباد کے دفتر کی دیواروں پر شاعروں ادیبوں کی تصاویر آویزاں کی گئیں۔۔۔۔ یہ تمام تصاویر مصور پاکستان اسلم کمال نے بنائی تھیں۔ فخر زمان نے اپنی تنظیم ورلڈ پنجابی کانگرس کے تحت بھی بہت سی کانفرنسوں کا انعقاد کیا۔ جو نہ صرف پاکستان اور بھارت بلکہ برطانیہ اور یورپ میں بھی منعقد ھوئیں اور اب بھی ھو رھی ھیں۔
1994 اکتوبر میں۔۔۔اسلام آباد میں اکادمی ادبیات اسلام آباد میں ادیبوں شاعروں کی قومی کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔جس کے لیے ھمیں اکادمی ادبیات لاھور کے ریزیڈنٹ ڈائرکٹر قاضی جاوید نے دعوت نامہ دیا اور وقت مقررہ پر فلیٹیز ھوٹل پہنچنے کا کہا۔روانگی کے وقت جب ھم فلیٹیز پہنچے تو لاھور کے تمام اردو پنجابی اور سرائیکی کے نامور شاعر ادیب جمع تھے۔ھم نے قاضی جاوید کی منگوائی ھوئی کوچ کی بجائے اپنی گاڑی پر اسلام آباد جانے کا فیصلہ کیا۔قائم نقوی بھی ھمارے ھم سفر بن گئے۔
کانفرنس کے پہلے دن۔۔۔۔میریٹ ھوٹل اسلام آباد میں صدر پاکستان فاروق لغاری نے افتتاحی خطاب کیا۔ پروگرام کے دوران دو شاعرات نے فاروق لغاری کو اپنی کتابیں پیش کیں۔۔۔۔ان کے نام شہناز مزمل اور در انجم عارف تھے۔۔۔اپنے خطاب کے بعد صدر پاکستان سب کے ساتھ گھل مل گئےتھے۔۔۔
یاسمین حمید نے کچھ کتابوں کے انگریزی میں تراجم کئے تھے۔۔۔۔ وہ پہلے سے اسلام آباد میں مقیم تھیں۔۔۔۔ یہ شاعروں، ادیبوں کا اسلام آباد میں ایک میلہ تھا۔ادبی سیشنز کے بعد چائے اور کھانے کے دوران سب سے گپ شپ ھوتی۔۔۔۔اس دور کے تمام لونگ لیجنڈز موجود تھے۔
پروین شاکر ہر سیشن کے بعد نئے کپڑے تبدیل کر کے آتیں۔۔۔۔انھوں نے بڑی ھیل کے جوتے پہنے ہوتے۔۔۔اس لیے ٹک ٹک کر کے چلتیں تو سب ان کی طرف متوجہ ھو جاتے۔۔۔۔ وہ مسکرا کر سب کو سلام کرتیں۔۔۔۔ کبھی کبھار رک کر حال احوال پوچھتیں۔۔۔۔
جب ان سے میرا تعارف ھوا تو کہنے لگیں۔۔۔”۔اب بہت جاندار نظمیں لکھتی ھیں۔۔۔آپ کے موضوعات بہت منفرد ھوتے ھیں۔۔۔۔لیکن شاید آپ اپنی ڈیوٹیز کی وجہ سے اپنی شاعری پر اتنی توجہ نہیں دیتیں۔۔۔۔ جتنی دینی چاہیے۔”
خوشبو کی شاعرہ کی موجودگی سے ساری محفل میں خوشبو بکھری رھتی۔۔۔۔
کبھی محسن نقوی شرارت سے مجھے کہتے۔۔’۔آج ھماری چائے آپ بنائیں گی۔۔۔۔”۔۔انھیں معلوم تھا ھمیں چائے بنانی نہیں آتی۔۔۔۔ھم خود اس انتظار میں ہوتے کہ کوئی ھمارے لیے چائے بنا دے۔۔۔۔۔ کسی کونے میں فہمیدہ ریاض ساڑھی پہنے ھاتھ میں سگریٹ پکڑے اپنے مداحوں میں گھری دکھائی دیتیں۔۔۔۔
صدیقہ بیگم میرے رنگ برنگ کپڑے دیکھ کر اپنے مخصوص اپنائیت بھرے لہجہ میں اظہر جاوید سے کہتیں۔۔۔
"۔لگتا ھے نیلما اپنے جہیز کے کپڑے پہن رھی ھے۔۔۔۔”
میں ھنس کر آگے گزر جاتی۔۔۔۔۔
ان کو کیسے بتاتی کہ دن رات یونیفارم میں رھنے والوں کو رنگین کپڑے پہننے کا موقع کبھی کبھار ہی ملتا ہے۔۔۔ ہاتھوں پر مہندی لگانا۔۔۔اور بہت ساری چوڑیاں پہننا میرا بچپن کا شوق تھا۔۔۔1985 میں بطور ڈی ایس پی ترقی ھوئی تو میں نے دونوں ھاتھوں میں سونے کی چوڑیاں پہن رکھی تھیں۔۔۔
جنہیں دیکھ کر ڈی آئی جی ھیڈکوارٹرز ۔۔چوھدری نثار نے مجھے چوڑیاں پہننے سے منعّ کیا تھا۔۔۔انھوں نے کہا تھا۔۔۔”آپ ایک ذمہ دار افسر ھیں۔۔۔۔زیورات تو عام خواتین کے لیے ھوتے ھیں۔۔”۔۔
اس وقت مجھے زاھدہ کوثر یاد آئی تھی۔۔۔۔ جس نے یہ کہہ کر پولیس کی نوکری کو خیرباد کہہ دیا تھا۔۔۔۔ کہ” اس طرح کی ڈیوٹیز سے تو ھماری نسوانیت ختم ہو جائے گی۔۔”۔۔
چوھدری نثار بہت شاندار افسر تھے۔۔۔ انھوں نے گلبرگ میں بچوں کے لیے سکول بھی کھولا تھا۔۔۔۔
میرے بچے کیتھیڈرل سکول میں پڑھتے تھے۔ کیتھیڈرل سکول انتظامیہ نے ایک انگریز ٹیچر کو نوکری سے نکال دیا۔۔۔
سمنڈز پاکستان میں رھنا چاھتا تھا۔۔۔۔ اس نے کہا مجھے کسی سکول میں نوکری دلادیں۔۔۔۔تاکہ میرا ویزا بڑھ جائے اور میں پاکستان میں رہ سکوں۔۔۔
میں اس کو چوھدرئ نثار کے سکول لے کر گئی۔۔۔۔انھوں نے کہا۔۔۔۔ھمیں کسی ٹیچر کی ضرورت نہیں۔۔۔۔پھر بھی ھم ان کو رکھ لیں گے ۔۔۔تنخواہ بھی دیں گے۔۔۔۔جب بچے زیادہ ھوگئے تو ان کو کلاس بھی دے دی جائے گی۔۔۔۔
لیکن بغیر کام کے تنخواہ لینا۔۔۔ سمنڈز نے قبول نہ کیا اور کچھ عرصہ بعد اس کو پاکستان چھوڑ کر جانا پڑا۔
کانفرنس کے تین دن ایک خوبصورت خواب کی طرح گزر گئے۔۔۔۔
ایک شام پریزیڈنٹ ھاوس میں عشائیہ بھی تھا۔۔۔۔جس میں پنجابی کے شاعر سائیں اختر حسین دھوتی کرتہ پہن کر شریک ھوئے۔۔۔۔۔ جن کی نظم۔۔۔اللہ میاں تھلے آ۔۔۔۔۔۔ بہت مقبول تھی۔۔۔۔
پریزیڈنٹ ھاوس کے خوبصورت لان میں ارد گرد کی پہاڑیوں پر اترتی ھوئئ شام میں۔۔۔۔بشری رحمان کی خوبصورت آنکھیں اور بھی دلکش لگ رھی تھیں۔۔۔۔
جب ھم واپس لاھور روانہ ھوئے تو دلکش یادوں کا ایک ھجوم ھمارے ساتھ تھا۔۔۔۔
دسمبر 1994 کی ایک بے رحم صبح۔۔۔پروین شاکر گھر سے دفتر کی طرف روانہ ھوئی تو ایک چوک میں موت اس کے انتظار میں کھڑی تھی۔ خوشبو اور ریشم میں لپٹی لڑکی کسی ڈرائیور کی غفلت سے خون میں لت پت پڑی تھی۔
موت کے بے رحم ھاتھوں نےنازک لفظوں سے محبت پرونے والی شاعرہ ھی نہیں، گیتو سے اس کی ماں بھی چھین لی تھی۔۔۔۔۔
(جاری ہے)