نظم

لوٹ کے نہیں آنے والا…نظم: فیض محمد صاحب

فیض محمد صاحب

فیض محمد صاحب
فیض محمد صاحب

بوسیدہ دروازے پہ
جمے قُفل
آنکھوں کی روشنی سے گئے
دیواریں راستہ ہو گئیں
کمرے کی ایک کھلی کھڑکی سے
چڑیاں جواں بچوں کو
پرانے وقتوں کی
پیار کی داستاں سُنا کر
اُڑنا سکھاتی ہیں
چمگادڑیں چھت سے لپٹی
بچوں کو لوریاں دیتی ہیں
تنگ گلی کسی کو گزرنے کا
راستہ نہیں دیتی
مُنتظر ہے کسی کی
کون سمجھائے اسے
وہاں سے کوئی
لوٹ کے نہیں آنے والا
فیض محمد صاحب

km

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

نظم

ایک نظم

  • جولائی 11, 2019
       از : یوسف خالد اک دائرہ ہے دائرے میں آگ ہے اور آگ کے روشن تپش آمیز
نظم

آبنائے

  • جولائی 13, 2019
         اقتدارجاوید آنکھ کے آبنائے میں ڈوبا مچھیرا نہ جانے فلک تاز دھارے میں گاتی ‘ نہاتی