اخترشیرانی
کچھ اُڑا لو مزہ جوانی کا
کیا بھروسا ہے زندگانی کا
دھوم ہے اپنے عشق کی گھرگھر
حق ادا ہو گیا جوانی کا
جس کا پردہ ہے اُس کی باتیں ہیں
کیا کُھلے بھید عمرِ فانی کا
کو ئی لا دے زبانِ حال مجھے
شکوہ کرنا ہے بے زبانی کا
دن کو آہیں ہیں، رات کو آنسو
عشق ہے کھیل آگ پانی کا
وہ جفا ہو کہ ہو وفا اختر
شُکر ہے اُن کی مہربانی کا