محمد جاوید انور
اس نے اپنی ساری زندگی چھوٹی چھوٹی ضرُورتوں کے پیچھے بھاگتے گُزاردی تھی۔ کبھی گھر میں بچی روٹی مل جاتی اور رات کا بچا سالن ۔ بھائی کی ٹُوٹی چپل ، ماں کی پھٹی ہُوئی شلوار کے کار آمد حصے سے بنائی گئی ٹخنوں تک آتی شلوار، اور بس ایسے ہی باقی سب کُچھ ۔
آج جب اس کی شادی تھی تو کالا بھجنگ رالیں ٹپکاتا، بڑے دانتوں والا دُو لہا، چنے پلاؤ کھانے کے بعد ایک ایک روپے کے نوٹوں کے ہار جھُلاتا اپنے تیرہ باراتیوں کے ہمراہ اسے لے کر غریب آباد کے بس سٹاپ پر آ کھڑا ہوا۔
وہ بھی عجیب سے لال رنگ کا جھُوٹے تلے والا سُوٹ پہن کر اڈے پر موجود سائیکل پنکچر کی دُوکان کے گندے بنچ پر بیٹھ گئی۔
دُور سے پُرانے انجن کے زور پر گھرر گھرر کرتی لدی پھندی بس نکلی تو سب ہوشیار ہو گئے۔
بس بالکل قریب آکر رُکنے لگی تو سب نے سیٹوں کے لئے دوڑ لگائی۔
وہ بھی اضطراری طور پر ہڑبڑا کر اٹھی اور بس کی طرف لپکی۔
پیچھے سے خالہ کی کر بناک آواز گُونجی،
” اری تُم دُلہن ہو !! ”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔