شاعر: شبلی نعمانی
تیرِ قاتل کا یہ احسان رہ گیا
جائے دل سینہ میں پیکاں رہ گیا
کی ذرا دست جنوں نے کوتہی
چاک آ کر تا بداماں رہ گیا
قتل ہو کر بھی سبکدوشی کہاں
تیغ کا گردوں پہ احساں رہ گیا
ہم تو پہنچے بزم جاناں تک مگر
شکوہ ءبیداد درماں رہ گیا
کیا قیامت ہے کہ کوئے یارسے
ہم تو نکلے اور ارماں رہ گیا
دوسروں پر کیا کھلے راز دہن
جبکہ خود صانع سے پیکاں رہ گیا
جامہ ہستی بھی اب تن پر نہیں
دیکھ وحشی تیرا عریاں رہ گیا
ضعف مرنے بھی نہیں دیتا مجھے
میں اجل سے بھی تو پنہاں رہ گیا
اے جنوں تجھ سے سمجھ لوں گااگر
ایک بھی تارِ گریباں رہ گیا
حسن چمکا یار کا ، اب آفتاب
اک چراغ ِزیر داماں رہ گیا
لوگ پہنچے منزل مقصود تک
میں جرس کی طرح نالاں رہ گیا
بزم میں ہر سادہ رو تیرے حضور
صورتِ آئینہ حیراں رہ گیا
یاد رکھنا دوستو اس بزم میں
آ کے شبلی بھی غزل خواں رہ گیا