Poetry نظم

اپنی زمین کے لیے ایک نظم


شاعرہ : پروین شاکر
خواب ، آنکھوں کی عبادت ہیں
گئی رات کے سناٹے میں
اپنے ہونے کا یقیں بھی ہیں
گُل و نغمہ کا اثبات بھی ہیں
خواب کے رنگ دھنگ سے بڑھ کر
کبھی پلکوں پہ ستارہ ،کبھی آنکھوں میں سحاب
کبھی رُخسار پہ لالہ،کبھی ہونٹوں پہ گلاب
کبھی زخموں کا ،کبھی خندۂ گل کا موسم
کبھی تنہائی کا چاند اور کبھی پچھلے پہر کی شبنم
خواب ،جو تجزیۂ ذات ہوئے
ان کو جب فرد کی نیندوں کی نفی کر کے لکھا جائے
تو اک قوم کا ناقابل تردید تشخص بن جائیں !
وہ خزاں زاد تھا
اور بنتِ بہار
اُس کی آنکھوں کے لیے خوابِ حیات
اپنے اس خواب کی تقدیس بچانے کے لئے
وہ اماوس کی گھنی راتوں میں
رت جگا کرتا رہا
اورایسے،کہ نیا موسمِ گُل آیاتوسب نے دیکھا
جھلملاتے ہُوئے اِک تارے کی اُنگلی تھامے
چاند پرچم پہ اُتر آیا ہے
سنگریزوں میں گلاب اُگتے ہیں
شہرِ آذر میں اذاں گونجتی ہے
خوشبو آزاد ہے
جنگل کی ہَوا بن کے سفر کرتی ہے
نئی مٹی کا ،نئی خواب زمینوں کا سفر
یہ سفر____رقصِ زمیں ، رقصِ ہَوا ، رقصِ محبت ہے
جواَب لمحہ موجود تک آ پہنچاہے

km

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

نظم

ایک نظم

  • جولائی 11, 2019
       از : یوسف خالد اک دائرہ ہے دائرے میں آگ ہے اور آگ کے روشن تپش آمیز
نظم

آبنائے

  • جولائی 13, 2019
         اقتدارجاوید آنکھ کے آبنائے میں ڈوبا مچھیرا نہ جانے فلک تاز دھارے میں گاتی ‘ نہاتی