احمد نواز
حسرتِ دید میں یہ کام بھی کر آیا ہوں
اپنی آنکھیں تری دہلیز پہ دھر آیا ہوں
کر کے تجسیم تری یاد کو لگتا ہے مجھے
جیسے ماضی کے دریچے میں اُتر آیا ہوں
خواہشِ ہست و نمُو مجھ میں تھی بے چین بہت
خاک تھا چاک پہ آتے ہی نکھر آیا ہوں
تیرے ہاتھوں کا ہے اعجاز مرے سنگ تراش!
میں جو یوں سنگ کے اندر سے اُبھر آیا ہوں
میں کسی شخص کی اُمید رہا ہوں برسوں
یہ ثمر اُس کی محبت کا ہے، بر آیا ہوں
اس طرح مُجھ سے تقاضا ہے خرد مندی کا
جس طرح دہر میں، ‘میں’ بارِ دگر آیا ہوں
احمد نواز
خاک تھا چاک پہ آتے ہی نکھر آیا ہوں
تیرے ہاتھوں کا ہے اعجاز مرے سنگ تراش!
میں جو یوں سنگ کے اندر سے اُبھر آیا ہوں
میں کسی شخص کی اُمید رہا ہوں برسوں
یہ ثمر اُس کی محبت کا ہے، بر آیا ہوں
اس طرح مُجھ سے تقاضا ہے خرد مندی کا
جس طرح دہر میں، ‘میں’ بارِ دگر آیا ہوں
احمد نواز