از: نیلما ناہید درانی
ریڈیو پاکستان لاہور سنٹر کا ذکر اور عالیہ منور
عالیہ بہت پر جوش لڑکی تھی۔۔۔بہت کچھ کرنا چاہتی تھی۔۔۔ٹی وی اور ریڈیو پر کام کرنا بھی اس کی خواہش تھی۔۔۔۔ان دنوں پولیس میں سب انسپکٹر بھی تھی۔۔۔قانون کی تعلیم مکمل کر کے اپنے استاد وکیل احسان کے ساتھ شام کو اسسٹنٹ کے طور پر کام بھی کر رہی تھی۔۔۔
اس نے ریڈیو پر لوکل نیوز بھی پڑھنا شروع کر دیں۔۔۔۔ان دنوں میرےکلاس فیلو ھارون عباسی ریڈیو پاکستان لاھور میں ڈائرکٹر نیوز تھے۔۔
ریڈیو میرا پہلا عشق ھے۔۔۔۔سکول کے زمانے میں ہماری ٹیچر ہمیں علامہ اقبال کے اشعار یاد کروا کر ریڈیو پر لے کر گئیں۔۔۔دوسرے سکولوں کے بچے بھی موجود تھے۔۔۔بیت بازی کا مقابلہ تھا۔۔۔۔جو ہم نے جیت لیا۔۔۔سٹوڈیو سے باھر نکلے۔۔۔تو ڈیوٹی آفیسر نے سب بچوں کو پندرہ روپے فی کس ادا کیے۔۔
وہ پندرہ روپے ایسا خزانہ تھا۔۔۔جسے ھاتھ میں لے کر ھم باقاعدہ اچھلتے ہوئے گھر تک پہنچے۔۔۔۔
بس پھر ریڈیو پر جا کر بولنے کی خواھش پیدا ہوگئی۔۔۔۔
کبھی کبھار بچوں کے پروگرام میں امی کے ساتھ جاتے۔۔۔۔جہاں اپنی پسندیدہ آپا شمیم سے ملاقات ہوتی۔۔۔اور گھر آ کر کمروں کے کونوں میں کھڑے ھو کر ان کی باتیں دھرا کر اپنی آواز سننے کی کوشش کرتے۔۔۔
انھی دنوں ریڈیو پاکستان نے بچوں کا ھفتہ منانے کا اہتمام کیا۔۔۔۔
جس میں ایک دن مشاعرہ بھی تھا۔۔۔جس کی صدارت صوفی غلام مصطفے تبسم نے کی۔۔۔
میں نے اس مشاعرے میں اپنا کلام سنایا۔۔۔یہ میری زندگی کا پہلا مشاعرہ تھا۔۔۔اگلے روز موسیقی کا مقابلہ تھا۔۔۔۔جس کی مہمان خصوصی ملکہ ترنم نورجہان تھیں۔۔۔اس پروگرام میں طاھرہ سید نے حصہ لیا۔۔۔
ملکہ ترنم نورجہاں سفید ساڑھی میں ملبوس تھیں۔۔۔ان کی ایک کلائی سنہری چوڑیوں سے بھری ھوئی تھی۔۔۔دوسری کلائی میں کالے رنگ کی چوڑیاں تھیں۔۔۔۔قومی ترانہ سناتے ھوئے وہ ایک آسمانی مخلوق دکھائی دے رہی تھیں۔۔۔۔بس اس دن سے ریڈیو پر بولنے کی خواھش میں اور شدت آگئی۔
ڈیڈی سے بہت ڈانٹ پڑتی۔۔۔کہ تعلیم پر توجہ دو۔۔۔بعد میں یہ سب کرنا۔۔۔
میرے دادا آغا نعمت اللہ جان نے اپنے دوست مصطفے علی ھمدانی سے جو ریڈیو پاکستان کے نامور اناونسر تھے۔۔۔سے میری خواھش کے بارے ذکر کیا۔۔۔ جس پر انھوں نے کہا۔۔۔”میں اپنی کسی بیٹی کو ریڈیو کے باہر سے گزرنے کی بھی اجازت نہیں دونگا "
ھمیں صرف بچوں کی کہانی لکھنے کی اجازت مل گئی۔۔۔ جو روزانہ شام کو عفت انعام سنایا کرتی تھیں۔۔ اس کہانی کا چیک بھی 15 روپے کا ملتا تھا۔۔۔۔
ریڈیو پر ایک پروگرام شروع ہوا۔۔۔اردو بنگلہ بول چال۔۔۔جس کے پروڈیوسر مظفر حسین تھے۔۔۔۔اس میں دو بچوں کی ضرورت تھی۔۔۔ایک لڑکا اور ایک لڑکی جنہوں نے بنگالی استاد صدیقی صاحب سے بنگلہ بات چیت سیکھنا تھی۔۔ جعفر رضا بھائی جو ریڈیو پر ڈرامہ کے پروڈیوسر تھے( ان کا تعلق اندرون موچی دروازہ امام بارگاہ خواجگان سے تھا ) کے کہنے پر اس پروگرام میں شرکت کی اجازت مل گئی۔۔۔۔یہ پروگرام روزانہ نشر ہوتا تھا۔۔۔
میری امی روزانہ میرے ساتھ جاتیں۔۔۔ریڈیو پاکستان لاھور سنٹر آج بھی مجھے اپنا گھر لگتا ہے۔۔
یہاں میں نے روشن آرا بیگم کو اپنے سازندوں کے جھرمٹ میں زرق برق ساڑھی میں ملبوس۔۔۔ریہرسل کرتے دیکھا تھا۔۔۔
میرا پسندیدہ پنجابی شاعر منظور حسین جھلا اس کے کوریڈور میں دکھائی دیتا۔۔۔۔جس کی شاعری ریشماں کی آواز میں محفوظ ہے۔۔۔کتے نین ناں جوڑیں۔۔۔۔تینوں واسطہ ای رب دا۔۔
اور۔۔۔۔ھائے ربا نئیں لگدا دل میرا۔۔۔
فوک گلوکار شوکت علی سٹوڈیو میں ریکارڈنگ کروا رھا ہوتا۔۔۔۔
اردو بنگلہ بول چال پروگرام جاری تھا۔۔۔کہ 1971 کی جنگ ھوگئی اور یہ پروگرام بند کردیا گیا۔۔۔
اس سے پہلے پی ٹی وی پر بنگالی زبان میں خبریں بھی نشر ھوا کرتی تھیں۔۔۔جسے موسیقار مصلح الدین کی بہن اور گلوکارہ ناھید نیازی کی نند نظارت اشرف پڑھا کرتی تھی۔۔۔
عالیہ منور نے ریڈیو پر خبریں پڑھنا شروع کیں۔۔۔اسی دوران اس نے سعودی ائر لائن میں ائرھوسٹس کی نوکری کے لیے درخواست دی اور سلیکٹ ہوگئی۔۔۔
وہ بہت خوش تھی۔۔۔سول لائنز میں آئی تو اس نے بتایا کہ” میں نے پولیس جاب سے استعفی دے دیا ہے۔۔جو ڈی آئی جی لاھور سعادت اللہ خان نے منظور کر لیا ہے۔۔۔میں ابھی ان سے مل کر آرھی ہوں۔۔۔اب ایس پی کینٹ سے ملنے آئی ھوں۔۔۔۔
رات کی فلائیٹ سے کراچی جانا ہے”
شام کا وقت تھا میں نے گھر جانا تھا۔۔۔اس نے مجھے کچھ دیر رکنے کو کہا۔۔۔لیکن میں نہیں رک سکتی تھی۔۔۔لہذا اسے الوداع کہہ کر گھر آ گئی۔۔۔۔۔
دوسری صبح اخبار دیکھا۔۔۔تو پریشان ھوگئی۔۔۔۔اخبار کی سرخی تھی۔۔۔عالیہ منور نے وکیل احسان کو قتل کر دیا ہے۔۔۔۔
عالیہ ایس پی کینٹ سے جب ملنے آئی تھی ۔۔۔۔وہ وکیل احسان کی گاڑی پر تھی۔۔۔وہ اکثر اس گاڑی کو ڈرائیو کرکے آفس آیا کرتی تھی۔۔۔کیونکہ اس نے وکیل احسان کے مقدمات کی پیروی کے لیے مختلف عدالتوں میں بھی جانا ہوتا تھا۔۔۔
اس روز وہ سول لائینز سے نکل کر احسان کے دفتر گئی۔۔۔اور ان کے ساتھ نیو کیمپس کی نہر کنارے ۔۔۔۔کیمپس سے کچھ آگے۔۔۔کسی نے فائر کیا جو احسان کو لگا جس سے وہ گر گئے۔۔۔ عالیہ گاڑی ڈرائیو کرکے۔۔۔۔گارڈن ٹاون کے مینا ھسپتال میں لے گئی۔۔۔لیکن وہ وفات پا چکے تھے۔۔۔۔
ھسپتال والوں نے پولیس کو اطلاع کر دی۔۔۔اور پولیس نے عالیہ کو ملزمہ کے طور پر گرفتار کر لیا۔۔۔
(جاری ہے)
نیلما ناھید درانی