Poetry نظم

آج شب دل کے قریں کوئی نہیں ہے


شاعر: فیض احمد فیض 
آج شب دل کے قریں کوئی نہیں ہے
آنکھ سے دور طلسمات کے در وا ہیں کئی
خواب در خواب محلّات کے در وا ہیں کئی
اور مکیں کوئی نہیں ہے،
آج شب دل کے قریں کوئی نہیں ہے
کوئی نغمہ، کوئی خوشبو، کوئی کافر صورت
کوئی امّید ، کوئی آس مسافر صورت
کوئی غم ، کوئی کسک ، کوئی شک ، کوئی یقیں
کوئی نہیں ہے
آج شب دل کے قریں کوئی نہیں ہے
تم اگر ہو، تو مرے پاس ہو یا دُور ہو تم
ہر گھڑی سایہ گرِ خاطرِ رنجور ہو تم
اور نہیں ہو تو کہیں۔۔ کوئی نہیں ، کوئی نہیں ہے
آج شب دل کے قریں کوئی نہیں ہے​

km

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

نظم

ایک نظم

  • جولائی 11, 2019
       از : یوسف خالد اک دائرہ ہے دائرے میں آگ ہے اور آگ کے روشن تپش آمیز
نظم

آبنائے

  • جولائی 13, 2019
         اقتدارجاوید آنکھ کے آبنائے میں ڈوبا مچھیرا نہ جانے فلک تاز دھارے میں گاتی ‘ نہاتی