از: یوسف خالد
ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم بتدریج اس دانش اور تجربے سے محروم ہو ئے ہیں جو ایک نسل دوسری نسل تک منتقل کرتی آ رہی تھی – وہ سماجی شعور جو سینہ بہ سینہ ایک مجلسی زندگی کے چلن کے ذریعے ہمیں فیض یاب کرتا تھا اور معاشرے کی ایک اجلی صورت تشکیل دیتا تھا — وہ سب کچھ قصہء پارینہ ہوا– زمانے کی رفتار اور ٹیکنالوجی کی یلغار ان مجالس کو چاٹ گئی جہاں بڑے غیر محسوس انداز میں دانش تقسیم ہوا کرتی تھی — وہ سلسلہ معدوم ہو چکا اب ہرفرد اپنی ذات تک محدود ہو گیا ہے- گرچہ یہ ایک فطری عمل ہے کہ زمانے کی رفتار رک نہیں سکتی، وقت کا بہاؤ تھم نہیں سکتا لیکن اس کمی کو پورا کیا جا سکتا تھا اور اس کا واحد ذریعہ تعلیم تھی — با مقصد و بامعنی تعلیم – مگر افسوس کہ ہم نے تعلیم کو کبھی ترجیح نہیں دی – تعلیم کے نام پر ایک مکروہ تجارت شروع کر دی – نصاب تعلیم میں چند ایسی بنیادی تبدیلیاں کر دیں کہ کوئی اگر چاہے بھی تو علم و حکمت تک رسائی حاصل نہ کر سکے – زبان جو حصول علم کے لیے بنیادی ضرورت ہے اسے انتہائی بے دردی سے نطر انداز کر دیا گیا ہے — اور یوں طالب علم کا تعلق لفظ سے،سوچ سے ،خیال سے اور کتاب سے کمزور کر دیا گیا ہے – لائبریریاں ویران ہو چکی ہیں – کتابیں فٹ پاتھوں پہ آ گئی ہیں –اب تعلیم محض معلومات اکھٹی کرنے اور بوقت ضرورت اس کو استعمال میں لانے کا ہنر بن چکی ہے- اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے انٹر نیٹ اور دیگر زرائع بڑی آسانی سے یہ خدمت انجام دے رہے ہیں – سوچ ،فکر، خیال اور دانش کی کوئی وقعت نہیں رہی – ایک دوڑ لگی ہوئی ہے کہ کیسے کوئی منصب حاصل کرنا ہے اختیار حاصل کرنا ہے اور کیسے اپنی ذات کے لیے سہولتیں اکھٹی کرنا ہیں — اس دوڑ میں حصہ لینے کے لیے ڈگریوں کا حصول لازمی ہے – علم کا نہیں ملک و قوم کی ترقی ،معاشرے کی اقدار کی پاس داری ،شخصیت کا حسن اور معاملات میں دیانت و شرافت ، سب بے معنی ہو چکے ہیں ہم نے ایک ایسے معاشرے کی تشکیل کی ہے جس کا فرد اپنی ذمہ داریاں نبھانے سے گریزاں ہے – جس کی علمی و فکری حیثیت ایک سوالیہ نشان بن چکی ہے – جو برداشت اور تحمل کی صفات سے محروم ہے– جس میں فیصلہ سازی اور معاملہ فہمی کی صلاحیت مفقود ہوتی جا رہی ہے – ہم سب اس صورت حال کے شاہد بھی ہیں اور اس کا حصہ بھی ہیں – اور ہماری کج فہمی اس المیے کو سمجھنے میں رکاوٹ ہے ہم خوش فہم رہنا چاہتے ہیں حقیقت شناس نہیں – ہم پر امید رہنا چاہتے ہیں پر عزم نہیں ہم سب اچھے کا راگ الاپ رہے ہیں مگر اندر سے ٹوٹتے جا رہے ہیں ،ریزہ ریزہ ہو رہے ہیں – معجزوں کے انتظار میں ہیں ۔مایوسیوں نے چھین لی چہروں کی آب و تاب
اس حادثے پہ کوئی بھی نوحہ کناں نہیں
مردہ پرست قوم ہے زندوں سے بے خبر
جلتے ہوئے نگر میں کوئی سائباں نہیں
Chat Conversation End