نیلما ناہید درانی
کوڑوں کی سزا پانے والا پہلا شخص اور سٹی کوتوالی
اسمبلی ہال میں روزانہ سائلین کی بڑی تعداد آتی تھی۔۔جن کو کنٹرول کرنے کے لیے ہولیس کی نفری بھی لگائی گئی تھی۔۔۔ایک کانسٹیبل رشوت کے الزام میں پکڑا گیا۔۔۔اس کو کوڑوں کی سزا ملی۔۔۔۔یہ سزا کوٹ لکھپت جیل کے باہر دی گئی ۔۔جسے دیکھنے ایک ہجوم اکھٹا ہو گیا۔۔۔میں نے نظم لکھی۔۔۔
کوڑوں کی سزا پانے والے پہلے شخص کے نام
تو میرے دور کا عیسی ہے
جس نے قوم کے سارے گناہوں ۔ساری برائیوں، ساری سزاوں،
کو اپنے کندھے پہ اٹھا کر کوڑے کھائے۔۔۔
ہم سب چور ہیں ، ہم سب ڈاکو
ہم سب رشوت خور لٹیرے
پھر سب کے حصے کی سزا
تم نے کیوں پائی؟
اور ہم چاروں اور کھڑے
تیرا تماشہ دیکھ رہے تھے
جیسے تم نے جرم کیا تھا
اور ہم سارے پارسا تھے
اس کے بعد اسمبلی ہال سے پولیس کی نفری کم کر دی گئی۔۔۔۔فرخندہ اقبال اور مقدس عاصمی خان پولیس لائن واپس آ گئیں۔۔۔۔
اب انسپکٹر نغمانہ زاھد اور انسپکٹر فرخندہ اقبال میں اقتدار کی جنگ شروع ہوئئ۔۔۔۔
نغمانہ خاموش طبع تھی جبکہ فرخندہ کی آواز ساری لائن میں گونجتی۔۔۔
پولیس لائن میں خواتین پولیس کے لیے نہ تو کوئی ھاسٹل تھا اور نہ ہی دفاتر۔۔۔۔۔پولیس ہسپتال کی بالائی منزل کو خواتین پولیس کے لیے مخصوص کر دیا گیا تھا۔۔۔۔
جو دو بڑے ھال کمروں جو شاید وارڈز کے طور پر بنائے گئے تھے اور تین چھوٹے کمروں پر مشتمل تھا۔۔۔
بڑے ھال کمرے خواتین کانسٹیبلز اور آفیسرز کی رھائش کے لیے استعمال ہوتے تھے۔۔۔۔ایک کمرے میں سب انسپکٹر شاھدہ کی رھائش تھی۔۔۔ایک کمرہ زینب اے ایس آئی کی رھائش کے ساتھ لائنز آفیسرز اور لیڈی محرر کا آفس بھی تھا۔۔۔
ایک کمرہ انسپکڑرز کے لیے مختص تھا۔۔۔۔جہاں نغمانہ، فرخندہ، نزھت اور میں بیٹھتے تھے۔۔۔۔
جب لڑائی زیادہ بڑھی تو ایس پی ھیڈ کوارٹرز قریشی صاحب نے فیصلہ کیا کہ دو انسپکٹرز کو سٹی کوتوالی بھیج دیا جائے۔۔۔اور دو پولیس لائن میں رھیں۔۔۔۔نغمانہ نے سٹی کوتوالی جانے کی رضامندی ظاھر کی۔۔۔۔اور میں بھی اس کے ساتھ جانے کو آمادہ ہو گئی۔۔۔۔نزھت ، فرخندہ کے ساتھ پولیس لائن میں رہ گئی۔۔۔۔
سٹی کوتوالی۔۔۔دہلی گیٹ کے سامنے۔۔۔لنڈا بازار کے ساتھ۔۔۔ایک خوبصورت عمارت تھی۔۔۔جو آج کل سی آئی اے ھیڈ کوارٹرز ھے۔۔۔۔کسی زمانے میں یہ شہر کے کوتوال کا دفتر ہو گا۔۔۔۔اسی لیے سٹی کوتوالی کے نام سے منسوب تھا۔۔۔۔
بڑے سے بیرونی گیٹ کے دائیں جانب۔۔پولیس اسٹیشن سٹی کوتوالی تھا۔۔۔دائیں جانب مردوں اور خواتین کی حوالات تھیں۔۔۔۔اس وقت یہ شہر بھر میں خواتین کے لیے واحد حوالات تھی۔۔۔۔جہاں خواتین ملزموں کو رکھا جاتا تھا۔۔۔۔
درمیان میں ایک باغیچہ تھا۔۔۔جس کے دائیں جانب۔ ایک طویل برآمدہے کے ساتھ خواتین کانسٹیبلز کی بیرک تھی۔۔۔اس سے متصل تین کمرے تھے۔۔۔ایک کمرے میں نبیلہ رانا سب انسپکٹر مقیم تھی۔۔۔دوسرا کمرہ دفتر کے طور پر استعمال ھوتا تھا۔۔۔ تیسرے کمرے میںسب انسپکٹر شروین اپنے دو بھائیوں کے ساتھ رھتی تھی۔۔۔۔
یہاںزیادہ تر کانسٹیبلز عمر رسیدہ تھیں۔۔۔جو اپنی زندگی کا بڑا حصہ پولیس میں گزار چکی تھیں۔۔۔پہلے پہل ان کو ھمارا آنا اچھا نہیں لگا۔۔۔لیکن جب ھم نے انھیں باجی کہہ کر احترام سے پکارا تو ان کا رویہ ھمارے ساتھ دوستانہ ہو گیا۔۔۔۔
بالائی منزل پر ایس پی سٹی اور ان کے عملے کے دفاتر تھے۔۔۔۔چوھدری زمان ان دنوں ایس پی سٹی تھے۔۔۔
نغمانہ بیمار رھنے لگی۔۔۔وہ کبھی کبھار آفس آتی۔۔۔میرا زیادہ وقت آفس میں گزرتا۔۔۔۔میری اردلی یاسمین بشیر کانسٹیبل تھی۔۔۔۔ جو میٹرک پاس تھی۔۔۔۔میں نے اس کو اپنا محرر بنا لیا۔۔۔۔۔
ایک دن میں کوتوالی پہنچی تو حوالات سے کسی عورت کے رونے کی آواز آ رھی تھی۔۔۔میں نے جا کر دیکھا۔۔۔ایک گوری چٹی نوجوان خاتون برھنہ کھڑی رو رھی تھی۔۔۔میں نے ڈیوٹی پر موجود کانسٹیبل سے کہا۔۔۔اس کو کپڑے پہناو۔۔۔اس نے کہا۔۔۔یہ نہیں پہنتی۔۔۔۔بس یہی کہتی ھے کہ مجھے ایس ایچ او نے ھفتہ بھر پولیس اسٹیشن میں ایسے ھی رکھا ھے۔۔۔۔اب میں کپڑے نہیں پہنوں گی۔۔۔۔اس پر چوری کا الزام تھا۔۔۔۔اور شہر کی خواتین کی واحد حوالات ھونے کی وجہ سے کسی بھی تھانے کی خواتین ملزمان کو عدالت میں پیش کرنے سے پہلے یہاں بند کیا جاتا تھا۔۔۔۔
یہ واقعہ میرے ذھن و دل کے لیے ایک تازیانے سے کم نہیں تھا۔۔۔۔
چند دن بعد ایک ادھیڑ عمر خاتون اسی حوالات میں لائی گئی۔۔۔اس کا نام زینب تھا۔۔۔گوری چٹی رنگت۔۔۔سفید بالوں والی عورت نہایت معزز لگ رھی تھی۔۔۔۔مجھے کانسٹیبلز نے بتایا کہ یہ عادی مجرم ھے اور چوری کے الزام میں کئی بار جیل جا چکی ہے۔۔۔۔
میں نے اس کو کہا ” ماں تم اتنی خوبصورت ھو کہ تمہیں ماں کہنے کو دل چاھتا ھے۔۔۔کیا کوئی ماں بھی چور ھو سکتی ہے "
یہ سن کر اس کی آنکھوں میں حیرت پھیل گئی وہ مجھے ایسے دیکھ رھی تھی جیسے میں کسی اور دنیا کی مخلوق ھوں۔۔۔۔
پولیس میں خواتین سب انسپکٹرز کا نیا گروپ آگیا۔۔۔یاسمین بشیر بھی سب انسپکٹر سلیکٹ ھو گئی۔۔۔۔یہ گروپ تیس سب انسپکٹرز پر مشتمل تھا۔۔۔۔صفیہ بیگم، نسرین، ریحانہ، ریحانہ ھادی ، نغمہ ،تبسم اکرم، عالیہ منور، میمونہ، بسم اللہ، شاھدہ، ناھید کوثر ، فریدہ، خورشید، ترسیل فاطمہ ،گل صنوبر ان میں شامل تھیں۔۔۔ان کے چھ ماہ بعد ایک اور گروپ کا اضافہ ھوا ۔۔۔یہ دس سب انسپکٹرز پر مشتمل تھا۔۔فہمیدہ کوثر، سمیرا منور، شاھدہ بھٹی، فرناز، ریحانہ اسلم، عزرا عبدالباری، شاھدہ یسین ، شائستہ نیازی، ان میں شامل تھیں۔۔۔ان میں سے اکثر کا کہنا تھا کہ وہ مجھے دیکھ کر پولیس میں آئی ھیں۔۔۔یعنی میں ان کے لیے رول ماڈل تھی۔۔۔
پولیس لائن میں خوب رونق اور چہل پہل ہو گئی تھی۔۔۔
فرخندہ اقبال اور چالیس سب انسپکٹرز کو ٹریننگ کے لیے پولیس کالج سہالہ بھیج دیا گیا۔۔
نغمانہ نے پولیس کی جاب سے استعفے دے کر ایبٹ آباد میں برن ھال سکول میں نوکری کر لی۔۔۔۔
نبیلہ رانا کی شادی ھوگئی اور وہ کوتوالی سے اپنے سسرال شفٹ ھو گئی۔۔۔۔منصورہ کو رھائش کی ضرورت تھی۔۔۔میں نے نبیلہ والا کمرہ اس کو الاٹ کردیا ۔۔ وہ اپنے شوھر اور ساس کے ھمراہ کوتوالی میں رھنے لگی۔۔۔کچھ دنوں بعد شروین کی کسی کیپٹن سے شادی ھو گئی اور وہ بھی نوکری چھوڑ گئی۔۔۔۔
پولیس لائن کے ڈی ایس پی سرور چیمہ ترقی پا کر ایس پی بنے تو ان کی پوسٹنگ ایس پی ھیڈ کوارٹرز کے طور پر ھوگئی۔۔۔
انھوں نے مجھے پولیس لائن واپس بلا لیا۔۔۔کیونکہ نزھت سلطانہ مرزا بھی شادی کے بعد چلی گئی تھی۔۔۔اور کوئی خاتون انسپکٹر پولیس لائن میں موجود نہیں تھی۔۔۔۔
ریزرو انسپکٹر خان نواب خٹک ڈی ایس پی ھیڈ کوارٹرز بن چکے تھے۔۔۔
سرور چیمہ ان پڑھ تھے اور کانسٹیبل سے ترقی کر کے ایس پی بنے تھے۔۔۔خان نواب خٹک بھی ان پڑھ تھے۔۔۔لیکن یہ لوگ بہت زیرک، معاملہ فہم اور بہترین منتظم تھے۔۔
میرا بھی ہولیس چھوڑ کر کوئی اور نوکری کرنے کا ارادہ تھا۔۔۔۔میں نے پی ٹی وی پراسسٹنٹ پروڈیوسر کے لیے درِخواست دے دی۔۔۔۔اور پہلے مرحلے میں کامیاب بھی ھو گئی۔۔۔اب آخری انٹرویو باقی تھا۔۔۔جو پی ٹی وی کے چیر مین جنرل مجیب الرحمن نے لینا تھا۔۔۔۔
(جارئ ہے )
نیلما ناھید درانی