شاعر: لیاقت علی عاصم
آخر گماں گماں ہے حقیقت تو ہے نہیں
تصویر کیا بنے، تری صورت تو ہے نہیں
اے دوست! تیری بزم میں آنے کا فائدہ
پہلو میں بیٹھنے کی اجازت تو ہے نہیں
ہم خون ِ دل پہ اس سے کریں خاک احتجاج
یہ قتل ماوراے عدالت تو ہے نہیں
صحرا دکھائی دیتے ہی گھر لوٹ آئیں گے
اے دل! یہ ہجر ِ یار ہے ہجرت تو ہے نہیں
بس ہو گیا گناہ، نکل آئے اس طرف
اب جانے دیجیے کہ یہ عادت تو ہے نہیں
عاصم! تمھارے بعد بھی ممکن ہے کوئی آئے
آخر یہ شاعری ہے نبوت تو ہے نہیں