از: غلام حسین ساجد
آنکھوں میں کوئی خواب نہ سر پر ردائے صبح
یعنی ادائے فقر و غنا ہے ادائے صبح
بڑھتی ہے روشنی نہ سمٹتی ہے روشنی
رکھی گئی ہے کس کے بدن پر بنائے صبح
باقی ہے میری آنکھ میں اک خوابِ خوش نما
آتی ہے میرے کان میں اب بھی صدائے صبح
برباد ہو چکی ہے مری سلطنت، مگر
چونکا ہے میرے نام پہ فرماں روائے صبح
رنگِ جمالِ یار نہ صبحِ جمالِ یار
کچھ بھی نہیں ہے میری نظر میں ورائے صبح
نکلا ہوں شہرِ خواب سے بے زار ہو کے میں
لایا ہوں ارمغانِ حقیقت برائے صبح
چھائی ہوئی ہے جب سے مرے آئنے پہ رات
کم پڑ گئی ہے میرے بدن پر قبائے صبح
جب بھید کھل گیا مرے اسرارِ خواب کا
آئی مرے نصیب میں حیرت سرائے صبح
آئے گا میرے ذہن میں بس اک پری کا نام
جب جب کسی چراغ سے ہو گی خطائے صبح
ساجدؔ مرے دماغ پہ حاوی ہے کوئی خواب
شاید کوئی چراغ ہے روشن ورائے صبح