شاعر: محمد مختارعلی
نغمگی جیسے کسی ساز کو زندہ کردے
اِک سماعت مری آواز کو زندہ کر دے
پر شکستہ ہوں مگر جست تو بھر لوں شاید
یہی کوشش مری پرواز کو زندہ کر دے
ہم اُسی عشق کی شمشیرسے گھائل ہیں کہ جو
بعض کو مَار دے اور بعض کو زِندہ کر دے
عین ممکن ہے کہ انجامِ سفر سے پہلے
حرفِ کُن پھر مرے آغاز کو زندہ کر دے
عشق میں جذبۂ فرہادؔ کو معیار بنا
شعر میں میرؔ کے انداز کو زندہ کر دے
یہی اُجڑا ہوا منظر یہی بجھتا ہوا دِیپ
جانے کب میری تگ و تاز کو زندہ کر دے
قحطِ آدم ہے یہاں بھیج کوئی شاہؔ لطیف
یا مجھی میں کسی شہبازؔ کو زندہ کر دے
کیا عجب ہو یہی پیرایۂ سادہ مختارؔ!
تیرے لکھے ہوئے الفاظ کو زندہ کر دے