شاعر: علیم حیدر
محبتوں میں مرا بخت نارسا بھی تھا
وہ چارہ ساز مرا زخم دیکھتا بھی تھا
ستم شناس مرے دکھ سے باخبر ہی نہیں
وہ مہرباں جو کبھی مجھ سے آشنا بھی تھا
مری مثال مجھے دے رہے تھے شہر کے لوگ
پتا چلا میں کسی دور میں بھلا بھی تھا
یہ ضبطِ رنج و الم کا صِلہ ہے ورنہ میں
جھپکتا آنکھ بھی تھا اور بولتا بھی تھا
ہمارا ڈوبنا طے تھا سو ہم تو ڈوب گئے
تمھارے پاس تو کشتی بھی ناخدا بھی تھا
یہ راہِ پاسِ وفا پاؤں چھوڑتی ہی نہیں
وگرنہ اور بھی منزل تھی راستہ بھی تھا