شاعرہ : سبینہ سحر
نکلے تھے مر کے پہلے تری داستاں سے ہم
پھر آ گئے صدا پہ تری ، آسماں سے ہم
خود آسماں نے چوم لیے ہیں زمیں کے لب
اب کس طرح ہٹائیں نظر اس سماں سے ہم
چھوٹی سی بھی خوشی نہ ملی اس جہان میں
لو جا رہے ہیں روٹھ کے اب، اس جہاں سے ہم
خوابوں میں پہلے تجھ کو ستائیں گے اور پھر
ہرگز نہ جائیں گے ترے ، وہم و گماں سے ہم
اب ظلمتوں کے سائے بھی کانپیں گے خوف سے
اب ساتھ لا رہے ہیں سحر، کہکشاں سے ہم
سبینہ سحر