ڈاکٹرناصرعباس نیر
سلیم آغا قزلباش کی وفات پر لکھا مضمون
پرسوں سہ پہر سلیم آغا قزلباش کے انتقال کی خبر ملی۔ اب تک یقین نہیں آیا۔ حالاں کہ دنیا میں اگر کوئی بات واقعی یقینی ہے ؛ہر طرح کے شک و شبہے سے بالاتر ہے تو وہ موت ہے،مگرہم فانی انسان یہ تصور کرنے پر خود کو تیار نہیں کرپاتے کہ ہم اور ہمارے قریب کے لوگ بھی مر جائیں گے۔ موت ہمیشہ ہمیں خود سے دور نظر آتی ہے۔ ان کی بیماری کی اطلاع تھی مگر یہ قطعی معلوم نہیں تھا کہ وہ ایک مہلک بیماری میں مبتلا ہیں۔ چند مہینے پہلے ان سے فون پر بات ہوئی ، انھوں نے سانس کی تکلیف کا ذکر کیا۔ یہ ذکر انھوں نے جس لہجے میں کیا اس سے ان کی بیماری کی سنگینی کا احساس نہیں ہوا۔ سرگودھا کے احباب کے ذریعے ان کی خیریت کی اطلاع بھی کم ہی ملی کہ سلیم آغا نے گزشتہ کچھ عرصے سے فون سننا اور احباب سے ملنا بند کردیا تھا۔ یہ واقعی پریشانی کی بات تھی ، مگر وہ اس قدر جلد رخصت ہوجائیں گے، اس کا خیال ،ان کے انتقال کی خبر سے پہلے ایک لمحے کو بھی نہیں ہوا تھا۔
کوئی اٹھائیس سال پہلے ان سے اس وقت ملاقاتیں شروع ہوئیں، جب ایم اے اردو کے دوسرے سال میں وزیر آغا صاحب کے یہاں سرگودھا اور وزیر کوٹ میں آنا جانا شروع ہوا۔ انھیں ہمیشہ کم آمیز اورکم گو پایا۔ ان سے ملاقاتوں کا شمار نہیں۔ ان سے کچھ عرصہ خط کتابت بھی رہی، مگر اتنے طویل عرصے میں بھی ان سے بے تکلفی نہیں ہو سکی۔ ان سے محض ادب اور ادبی شخصیات پر باتیں ہوتیں، وہ بھی کچھ دیر کے لیے۔ مجھے سرگودھا، وزیرکوٹ اور لاہور میں آغا صاحب کے پاس گھنٹوں بیٹھنے اوران کی باتیں سننے کا موقع نصیب رہا، مگر سلیم آغا ان نشستوں میں بس چند منٹوں کے لیے آتے، حال احوال دریافت کرتے، معاصر ادبی صورتِ حال پر اپنی مختصر رائے دیتے، پھر اپنے کمرے میں چلے جاتے۔ اتنے برسوں میں وہ کبھی کھلکھلا کر ہنسے ہوں، میری یادداشت میں نہیں۔ شروع میں ان کے لیے دیے رہنے سے الجھن ہوتی تھی، اور شکایت بھی پیدا ہوتی تھی مگر رفتہ رفتہ یہ بات سمجھ میں آئی کہ ہم دوسروں کو سمجھنے سے زیادہ، ان کے بارے میں حکم لگانے کی غلطی کرتے ہیں۔ سلیم آغا حقیقی معنوں میں تنہا تھے۔ انھوں نے غالباً تین شادیاں کیں، تینوں بوجوہ کامیاب نہ ہو سکیں۔ اولاد کی نعمت سے بھی محروم تھے۔ یہ دکھ معمولی نہیں تھا، اور اس دکھ میں اپنے اکلوتے بیٹے کی مانند وزیر آغا صاحب بھی شریک تھے۔ (سلیم آغا کی ایک ہی بہن ہے جو عین جوانی میں بیوہ ہوگئی تھیں جن کے بچوں کی پرورش آغا صاحب نے کی)۔ میں نے ایک بار ہمت کرکے آغا صاحب سے اس موضوع پر بات کی۔ انھوں نے کہا اولاد کی خواہش کا بڑ ا محرک اپنے نام کی بقا ہے، مگر آدمی کا نام آخر کب تک زندہ رہتا ہے؟ تیسری پیڑھی جانتی ہی نہیں کہ ان کے آباﺅ اجداد میں کون کون تھا۔ وہ ذوق کے اس شعر کے فلسفے میں بھی کم ہی یقین رکھتے محسوس ہوتے تھے۔
رہتا سخن سے نام قیامت تلک ہے ذوق
اولاد سے تو ہے یہی دو پشت چار پشت
آغا صاحب فلسفیانہ ذہن رکھتے تھے۔ یہ تک کہتے تھے کہ ایک وقت آئے گا جب یہ زبان ، ملک ، کائنات بھی باقی نہیں رہیں گے۔ اپنی ، اپنے سیارے اور کائنات کی کلی فنا کو بھولنا نہیں چاہیے۔ اس سے نظر وسیع ہوتی ہے اور چھوٹی چھوٹی باتوں کا رنج جاتا رہتا ہے۔ اس طرح کے فلسفے ڈھارس بندھاتے ہیں، بعض کو وقتی بعض کو دائمی۔ تاہم بلا سے اولاد باپ دادے کا نام روشن کرے یا ڈبوئے، اس سے محبت کا تجربہ زندگی کے اہم ترین تجربات میں سے ہے۔ میرا اندازہ ہے کہ سلیم آغا کی تنہائی اور لیے دیے رہنے کی ایک ممکنہ وجہ غالباً یہی تھی۔
سلیم آغا ایک بڑے اور صاحب ثروت باپ کے اکلوتے بیٹے تھے۔ سب انھیں اسی حیثیت میں ملتے اور پہچانتے تھے۔ وہ خود اس حیثیت کے متعلق کیا جذبات رکھتے تھے، اس کے بارے میں کچھ بھی وثوق سے کہنا مشکل ہے۔ اپنے جذبات پر ان کے مسلسل ضبط نے اس بات پر دبیز پردہ ڈالا ہوا ہے۔ البتہ انھیں اس بات کا مسلسل قلق ضرور رہا کہ آغا جی (وہ آغا صاحب کو آغا جی کہا کرتے تھے) کو لاہور والوں نے نہ صرف نظر انداز کیا بلکہ ان کا امیج بھی مسخ کیا۔ اسی طرح آغا صاحب کے انتقال کے بعد جب کچھ لوگوں نے ان کی تنقید پر سرقے کے بے سروپاالزامات لگائے تو بہت دکھی ہوئے۔ یہ وہی لوگ تھے، جو آغا صاحب کے پاس گھنٹوں بہ صد ادب بیٹھتے تھے۔ عابد خورشید اور شاہد شیدائی نے ان الزامات کے مسکت جوابات لکھے۔
سلیم آغا نے ایک اپنی شناخت بنانے کی مقدور بھر کوشش کی اور اس میں بلاشبہ کامیاب ہوئے،اور یہ کوشش انھوں نے آغا صاحب کی مانند ادب ہی کی دنیا میں کی۔ آغا صاحب نے گورنمنٹ کالج لاہور سے معاشیات میں ایم اے کیا۔ 1957ء میں پیدا ہونے والے سلیم آغا نے اورینٹل کالج سے اردو میں ایم اے کیا۔ اگرچہ باپ بیٹے دونوں نے اورینٹل کالج کے شعبہ اردو سے پی ایچ ڈی کی ڈگریا ں لیں، مگر دونوں نے الگ الگ اصناف کا انتخاب کیا۔ آغا صاحب نے اردو ادب میں طنزو مزاح کا انتخاب کیا، مگر سلیم آغا نے اردو افسانے کے جدید رجحانات کے عنوان کو چنا۔ (اس اہم مقالے کا دوسرا ایڈیشن حال ہی میں انجمن ترقی اردو پاکستان ،کراچی سے شایع ہوا ہے)۔ آغا صاحب نے نہ صرف خود انشائیے لکھے، بلکہ اردو میں انشائیہ نگاری کو تحریک بھی بنایا۔ سلیم آغا اس تحریک میں شامل ہوئے۔ انھوں نے ”مغرب کے انشائیے“ کے عنوان سے مغربی انشائیوں کے تراجم شایع کیے اور خود بھی عمدہ انشائیے لکھے۔ ”سرگوشیاں“، ”آمنا سامنا “ اور”نام میں کیا رکھا ہے“ ان کے اردو انشائیوں کے مجموعے ہیں۔ ”منتخب انشائیے “اور” نئے انشائیے“ کے عنوانات کے تحت اردو انشائیوں کے انتخابات بھی کیے۔ آغا صاحب کے انتقال کے بعد سلیم آغا، شاہد شیدائی کے پرچے”کاغذی پیرہن “ میں انشائیے کی تحریک کو جاری رکھے ہوئے تھے۔
آغا صاحب نثری نظم کو شاعری تسلیم نہیں کرتے تھے، اسے ”اوراق“ میں ضرور شایع کرتے تھے مگر نثر لطیف کے عنوان سے۔ سلیم آغا نے نثری نظم کو باقاعدہ اپنے ادبی اظہار کے طور پر اختیار کیا اور اسے نثر لطیف نہیں، نثری نظم یعنی شاعری ہی کہا اور لکھا۔ ” ایک آواز“، ’زخموں کے پرند“،’ہے نا عجیب بات“ ان کی نثری نظموں کے مجموعے ہیں۔ افسانہ ،سلیم آغا کے تخلیقی اظہار کی اہم ترین صنف تھی۔ ”انگور کی بیل“ اور ”صبح ہونے تک“ ان کے افسانوں کے مجموعے ہیں۔ ان کے کچھ افسانے علامتی تھے مگر بیشتر حقیقت نگاری پر مبنی تھے۔ ’ صبح ہونے تک‘ ان کا فلسفیانہ افسانہ ہے ،جس میں انسان، سماج ،تاریخ اور کائنات سے انسان کے تعلق کو موضوع بنایا گیا ہے۔ ان کے افسانوں کی جیسی تحسین ہونی چاہیے تھی نہیں ہوئی۔ وہ باقاعدہ نقاد نہیں تھے، مگر کبھی کبھی تنقیدی مضامین لکھا کرتے تھے۔ کچھ عرصہ ’‘اوراق“ کی ادارت میں بھی شامل رہے مگر پھر مسموم ادبی فضا سے دل برداشتہ ہوکر الگ ہوگئے۔ آغا صاحب کے بعد 58 سول لائنز سرگودھا اور 3115 سرور روڈ لاہور میں بالترترتیب سرگودھا اور لاہور ادیبوں کو شام کی پرتکلف چائے پر بلاتے رہے، پھر یہ سلسلہ موقوف ہوگیا۔ وہ زیادہ وقت اپنے آبائی گاﺅں وزیر کوٹ میں گزارنے لگے اور آخر میں بیماری کے شدید ہونے کے بعد لاہور میں۔ ان کا قد آغا صاحب کی مانند نکلتا ہوا تھا، آخری دنوں میں چہرے کے نقوش بھی آغا صاحب کی مانند ہوگئے تھے۔
ان کی نثری نظم ’کیا یہی زندگی ہے!‘ خود ان کی اور ہم سب کی زندگی کے سفر کا بیان ہے!
تتلی کو چھونے کی کوشش کرنا
چاند میں کسی چہرے کے
نقوش ڈھونڈنا
آنسوﺅں سے
خود اپنے ہی دامن کو
بھگوتے چلے جانا
اور ہوا کے کسی
بے صبرے جھونکے کے ساتھ
بکھرتے اوراق کی صورت
سارے شہر میں ٹھوکریں کھاتے پھرنا
پھر شام ڈھلے
کسی کٹیا میں
دھویں کی بکل مارکر
کھانستے کھانستے سو جانا
کیا یہی زندگی ہے!