تحریر: سعید اشعر
سترہ اکتوبر۔ ساجد حمید کی آج قبر میں پہلی رات ہے میں اس سے ایک ماہ پہلے ملنے گیا تھا۔ وہ اپنی زندگی کی آخری لڑائی لڑ رہا تھا۔ میرے ساتھ ڈاکٹر سفیان صفی بھی تھے۔ ساجد حمید اپنے بیڈ روم میں بچھی ایک چٹائی پر نیم دراز تھا۔ اس کے قریب کچھ کتابوں کے مسودے پڑے تھے جن پر وہ کام کر رہا تھا۔ ہمیں دیکھ کر اس نے اٹھنے کی کوشش کی۔ اس کے لیے اٹھ کر کھڑا ہونا انتہائی تکلیف دہ تھا۔ منع کرنے کے باوجود وہ اٹھ کر ہمیں ملا۔ اس کا وجود ہوا کے ہاتھ میں رکھے ہوئے ایک زرد پتے سے زیادہ وزنی نہیں تھا۔ تندرستی کی حالت میں بھی اس کا جسم فربہ مائل نہیں تھا۔ لیکن بیماری نے اسے دیمک کی طرح اندر ہی اندر چاٹ لیا تھا۔ ہم وہاں کچھ دیر بیٹھے۔ اس کے سامنے جھوٹ بولتے رہے کہ اب اس کی حالت پہلے سے کافی بہتر لگ رہی ہے۔ اس کے بھائی نے چائے، کیک اور کچھ دوسری اشیاء سے ہماری تواضع کی۔ میں مسلسل چور نظروں سے ساجد حمید کو دیکھتا رہا۔ وہ انتہائی تکلیف دہ حالت میں بھی اپنے آپ کو پرسکون رکھنے کی کوشش میں مصروف تھا۔
"ساجد بھائی بہت بہت مبارک ہو۔ بہت خوشی ہوئی کہ آپ کا پہلا شعری مجموعہ آ گیا ہے”
میں نے تھوڑا سا اس کا دھیان بٹایا۔
"خیر مبارک”
اس نے اپنے بھائی کو آواز دے کر کتاب منگوائی۔ اس پر میرا نام لکھ کر دستخط کیے اور بڑی مشکل سے دوبارہ کھڑے ہو کر مجھے پیش کی۔ کتاب کا ٹائٹل بہت ہی دیدہ زیب تھا۔ یہ کتاب بزمِ فکر و فن نے نہ صرف چھاپی بلکہ ایبٹ آباد میں اس کی رونمائی کے لیے ایک شاندار تقریب بھی منعقد کی۔ اس کے لیے میں احمد حسین مجاہد اور دوسرے دوستوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں
ساجد حمید ایک قادرالکلام شاعر تھا۔ کچھ لوگ اگر اسے استاد شاعر کہتے تھے تو اس میں کوئی مبالغہ نہیں تھا۔ نیم کلاسیکل اسلوب میں شعر کہتا تھا۔ اس کے دھیمے مزاج کا گہرا عکس اس کی شاعری میں بھی نمایاں تھا۔ وہ رموزِ سخن سے پوری طرح آگاہ تھا۔ اس نے اپنی ساری زندگی اس فن کی ابیاری میں صرف کی۔ پرنم الٰہ آبادی کے خاص شاگردوں میں اس کا نام بھی شامل تھا۔
ساجد حمید سے میرا تعلق کئی دہائیوں سے تھا لیکن اس کی نوعیت ذاتی نہ بن سکی۔ زیادہ تر ہماری ملاقات ادبی محفلوں میں ہوئی۔ سادگی سے اشعار پڑھتا۔ نمود و نمائش کی اسے بالکل خواہش نہیں تھی۔ خاموشی سے اپنے کام سے جٹا رہتا۔ ایک بار میں، سفیان صفی اور محبوب عطا قلندر آباد ڈاکٹر صابر کلوروی کے ہاں گئے۔ ساجد حمید پہلے سے وہاں موجود محبوب عطا کے پہلے مجموعے کی پروف ریڈنگ کر رہا تھا۔ اس طرح کی بے شمار خدمات ہیں جن کا کوئی ریکارڈ نہیں۔ ساجد حمید ایک متحمل مزاج، بردبار، رحم دل، صابر، متوکل، بے لوث اور تعاون کرنے والا شخص تھا۔ بہت سارے لوگ اس سے محبت کرتے تھے۔
ساجد حمید زبردست منتظم بھی تھا۔ کافی پرانی بات ہے ایک دن سفیان صفی اور محبوب عطا میرے پاس آئے۔ عطا صاحب بولے۔
"ساجد حمید نے ایک تنظیم بنائی ہوئی ہے۔ ادادہ علم و فن۔ وہ چاہتا ہے ہم سب اس کی تنظیم میں آ جائیں۔ اس کے لئے وہ سفیان صاحب کے حق میں بخوشی صدارت سے بھی دستبردار ہو رہا ہے۔ سعید صاحب ہم آپ کے پاس اس لئے آئے ہیں کہ آپ بھی ہمارا ساتھ دیں۔”
نتیجتا ادارہ علم و فن کا نیا صدر سفیان صفی بنا دیا گیا۔ مجھے نظامت اور محبوب جوش کو سرپرستِ اعلٰی کی ذمہ داریاں دی گئیں۔ ادارے کے تین شعبہ جات تھے۔ ادب، مصوری و خطاطی اور موسیقی۔ ابھی چند دن ہی گزرے تھے۔ طارق ایوب، ساجد حمید اور فیاض خان میرے پاس آئے۔
"ہمارے پاس ہارمونیم نہیں۔ سیکھنے کے لئے اس کا ہونا بہت ضروری ہے۔ ایک جگہ بڑا اچھا ہارمونیم مل رہا ہے۔ سعید صاحب کچھ کریں۔”
میں نے اپنی جیب سے حسبِ توفیق کچھ پیسے نکالے۔ اور انھیں کہا کہ اپنا اپنا حصہ ڈالیں۔ پھر میں ان تینوں کے ساتھ مین بازار میں نعیم عابد، رفیق انور، حاجی عبدالصبور، ندیم ظفر اور کچھ دوسرے دوستوں کے پاس گیا۔
"ہمارے ادارے کے شعبہِ موسیقی کے پاس ہارمونیم نہیں۔ اس کے بغیر بالکل بھی گزارہ ممکن نہیں۔ ہم ایک عدد ہارمونیم خریدنا چاہتے ہیں۔ آپ اس کارِ خیر میں بڑھ چڑھ کر اپنا حصہ ڈالیں۔ اور شام کو آ کر گانا بھی سنا کریں۔”
ادارہ علم و فن میں کافی عرصہ ہمارا ساتھ رہا۔ پھر میں گوشہ نشین ہو گیا۔ کافی عرصہ تک میں شہر کی ادبی سرگرمیوں سے الگ رہا۔ شاید دو ہزار نو کی بات ہے سرائے صالح ایک جنازے میں ساجد حمید نے مجھے دیکھ لیا۔ بہت ہی محبت سے مجھے ملا۔ ہم کافی دیر تک ساتھ رہے۔
"سنا ہے آج کل سعودیہ میں ہیں۔ آپ کا پتہ ہی نہیں چلتا کب آتے ہیں اور کب جاتے ہیں”
"جی میں دمام ہوتا ہوں۔ بچے کراچی ہیں۔ ایک ماہ کی چھٹی ہوتی ہے دو چار دن کے لیے ہری پور آنا ہوتا ہے۔ پتہ ہی نہیں چلتا وقت گزر جاتا ہے”
"آپ کی ایک کتاب بھی تو آئی تھی۔ مجھے ابھی تک نہیں ملی”
"اصل میں کتاب جب چپھی میں سعودیہ میں تھا۔ میں نے بہت ساری کتابیں کراچی سے وحید صاحب کو بجھوائیں کہ سب دوستوں کو دے دیں۔ وہ مروت میں انکار نہیں کر سکے۔ زیادہ کتابیں اب بھی ان کے پاس پڑی ہوئی ہیں”
ساجد حمید ہمیشہ سلجھے ہوئے انداز میں بات کرتا۔ کسی اختلاف کی صورت میں بھی دوسرے کے احترام میں کمی نہ کرتا۔ ادبی سیاست سے اپنے آپ کو الگ رکھتا ایثار سے کام لیتا۔ میں نے اس کے منہ سے کبھی کسی کے خلاف کوئی بات نہیں سنی۔ اپنے علم سے دوسروں کو مرعوب کر سکتا تھا لیکن اس طرف اس کا کبھی دھیان نہیں گیا۔ اس نے ہمیشہ دوست بنائے تھے۔ اس کا اگر کوئی دشمن تھا بھی تو صرف وقت تھا۔
اور وقت نے اسے شکست دے دی۔
انا للہ و انا الیہ راجعون۔
ساجد حمید کے لواحقین میں دوسروں کے علاوہ اس کا ایک سالہ اکلوتا بیٹا بھی ہے
سعید اشعرؔ