ترجمہ : ڈاکٹر معین نظامی
جمله یارانِ تو سنگ اند و توی مرجان چرا
آسمان با جملگان جسم است و با تو جان چرا
(تمھارے سب ساتھی پتھر ہیں، تم ان میں مرجان کیوں ہو، آسمان باقی سب کے ساتھ گویا جسم ہے، تمھارے ساتھ جان کیوں ہے)
چون تو آیی جزو جزوم جمله دستک میزنند
چون تو رفتی جمله افتادند در افغان چرا
(جب تم آتے ہو تو میرا رؤاں رؤاں تالیاں بجاتا ہے، جب تم چلے جاتے ہو تو رؤاں رؤاں محوِ نالہ و فغاں کیوں ہو جاتا ہے)
با خیالت جزو جزوم میشود خندان لبی
میشود با دشمنِ تو مو به مو دندان چرا
(تمھارا خیال بھی آئے تو میری پور پور خندہ بر لب ہو جاتی ہے، تمھارے دشمن کے معاملے میں میرا بال بال دانت کیوں بن جاتا ہے)
بی خط و بیخالِ تو این عقل اُمّی میبوَد
چون ببیند آن خطت را میشود خط خوان چرا
(تمھارے خط و خال کے بغیر یہ عقل محض ناخواندہ ہوتی ہے، تمھارا جمالِ خط دیکھتے ہی خط خواں کیوں بن جاتی ہے)
تن همیگوید به جان پرهیز کن از عشقِ او
جانْش میگوید حذر از چشمهء حیوان چرا
(جسم جان سے کہتا ہے کہ اس کے عشق سے پرہیز کرو، جان جسم سے کہتی ہے کہ آبِ حیات کے چشمے سے کاہے کا حذر)
روی تو پیغامبرِ خوبی و حسنِ ایزد است
جان به تو ایمان نیارد با چنین برهان چرا
(تمھارا چہرہ رعنائی اور حسنِ خداوندی کا پیغمبر ہے، ایسی دلیل کے ہوتے ہوئے بھلا روح تم پر کیوں ایمان نہ لائے)
کو یکی برهان که آن از روی تو روشنتر است
کف نبُرّد کفرها زین یوسفِ کنعان چرا
(کہاں ہے کوئی ایسی دلیل جو تمھارے چہرے سے زیادہ واضح ہے، اس یوسفِ کنعاں کو دیکھ کر ہر طرح کا کفر بھلا اپنی ہتھیلیاں کیوں نہ کاٹ لے)
هر کجا تخمی بکاری، آن برُویَد عاقبت
برنروید هیچ از شه دانهء احسان چرا
(تم کہیں بھی کوئی بیج بوؤ، وہ آخر کار پھوٹ ہی نکلتا ہے، لطف و احسان کا شاہ دانہ بھلا کیوں نہیں پھوٹے گا)
هر کجا ویران بوَد، آن جا امیدِ گنج هست
گنجِ حق را مینجویی در دلِ ویران چرا
(جہاں ویرانہ ہوتا ہے، وہیں سے خزانہ ملنے کی امید ہوتی ہے، تم دل کے ویرانے سے خزینہء خدا کیوں نہیں ڈھونڈتے ہو)
بی ترازو هیچ بازاری ندیدم در جهان
جمله موزون اند عالم نَبْوَدَش میزان چرا
(میں نے دنیا میں کوئی ایسا بازار نہیں دیکھا جس کے ناپ تول کے پیمانے نہ ہوں، جب کائنات کا ہر فرد کوئی نہ کوئی وزن رکھتا ہے تو ان کا کوئی معیاری پیمانہ بھلا کیوں نہیں ہو گا)
گیرم این خربندگان خود بارِ سرگین میکشند
این سواران باز میمانند از میدان چرا
(چلیے مان لیا کہ یہ گدھوں کے بیوپاری تو اپنا لید کا بوجھ ڈھوتے پھرتے ہیں، یہ سواروں کی صفیں بھلا میدان کا رخ کرنے سے کیوں کنّی کترا رہی ہیں)
هر ترانه اوّلی دارد دلا و آخری
بس کن آخر این ترانه نیستش پایان چرا
(اے دل، ہر گیت کا کوئی آغاز ہوتا ہے اور انجام بھی، تم اب یہ گیت ختم بھی کر دو، آخر اس کا انجام کیوں نہیں ہے)