بزرگ فرماتے ہیں کہ ایک خاکہ نگار امیر یا غریب ہو سکتا ہے
اگر اس کے گرد مصنوعی، ملمع کاری یا روایتی بھیڑ چال ہے تو وہ غریب اور قابل ترس ہے.
لیکن اگر اس کے گرد کردار ہیں جنہیں انگلش استعمال کرتے ہوئے اردو میں کیریکٹر کہتے ہیں تو وہ کبھی غریب نہیں ہو سکتا.
میں کئی حوالوں سے امیر ہوں، اول تو یہ کہ مجھے بے شمار کیریکٹر میسر ہیں. بلکہ میں عجیب الخلقت ، انواع و اقسام کے کیریکٹروں کے گھیرے میں ہوں، جب کہ کچھ کے نرغے میں بھی ہوں مگر وہ سب نقاد ہیں.
دوئم یہ کہ مجھے ان کرداروں کا بے پناہ پیار بھی حاصل ہے. یعنی اک ایسے دور اور شہر میں جہاں کپڑوں جوتوں اور بالوں سالوں سے ادیب کے بڑے یا چھوٹے ہونے کا فیصلہ کیا جاتا ہے وہاں دوستوں، یاروں کی محبت ہی اس قدر وافر رہتی ہے کہ اپنے آپ کو اچھا ادیب سمجھنا فرض ہوجاتا ہے، کہیں یاروں کی محبت کی بے حرمتی ہی نہ ہو.
کیریکٹروں سے لدے پھندے میرے یہ دوستانے کبھی کبھار فقط لدے پھندے کی بجائے پھندے بھی ثابت ہوتے ہیں جن میں پھنسے بنا گزرنا ممکن ہی نہیں ہے.
اسی قسم کا ایک عالیشان کردار صلاح الدین درویش بھی ہے. جسے میں صلاح الدین ایوبی سے اس لیے بے شمار بہتر سمجھتا ہوں کیونکہ وہ ایوبی سے زیادہ بہادر، تیس مار خان اور معاملہ فہم فرد ہے.
ایوبی سے زیادہ فطین میں درویش کو اس لیے بھی سمجھتا ہوں کہ میں نے صلاح الدین ایوبی کو اس کے نام کے سوا کبھی نہ جانا نہ جاننے کی کوشش کی ہے.
صلاح الدین درویش کی وجہ شہرت اس کا ہتھوڑا ہے،اس کی درانتی پیپل پارٹی نے کھا رکھی ہے
وہ بنیادی طور پر ایک اعلی پائے کا واحد تخریب کار ہے جسے ناشتے میں پائے سخت ناپسند ہیں، دماغ بہت شوق سے کھاتا ہے اور کبھی کبھی ٹک ٹاک طرز کے ٹکا ٹک بھی راتوں رات کش لگا لیتا ہے.
تخریب کاری دورِحاضر کا فیشن ہے، اور اس فیشن کے موجدوں میں صلاح الدین درویش کے سپرم. بدرجہ اتم موجود ہیں،سو اولاد کی تربیت سے قطعی بے نیاز خود ادبی و فکری ٹھوکا ٹھاکی میں ید کے ساتھ ساتھ ہتھوڑا بھی طویل رکھتا ہے. اور اس کے تخریبی ہتھوڑے کی مار سے کوئی کلچر، کوئی روایت، کوئی رائیٹ، کوئی لیفٹ، کوئی تخلیق، کوئی تھیوری محفوظ نہیں،
درویش عہد حاضر کا واحد درویش ہے جسے اپنا نام یعنی صلاح الدین اسٹیبلش کرنے کا کوئی شوق نہیں، رہا تخلص یعنی درویش تو اسے سٹیبلش کرنے کے لیے درویش نے کبھی کوئی تنکا نہیں توڑا. ہمیشہ لوگوں کے نظریات، فکریات، کے کھوپڑ توڑے ہیں، پرانے وقتوں میں جنگ و جدل کے دوران کئی کئی تلواریں ٹوٹ جاتی تھیں، لیکن نسیم حجازی کے ناول اور تلوار ٹوٹ گئی کے بغور مطالعے کے بعد اس نے اس روایت کو بھی توڑتے ہوئے اپنے فکری ہتھوڑے کو ایسا مضبوط، گُھس پیٹیا، اور کئی جگہوں سے اتنا سخت بلکہ ڈھیٹ تک تشکیل دیا ہے کہ جنگوں کے کشتوں کے پشتے لگ رہے ہیں لیکن درویشانہ ہتھوڑا گل محمد بنا ٹس سے مس نہیں ہو رہا.
اس سب کے لیے اول و آخر نسیم حجازی کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اکثر اسے بسم اللہ ہوٹل کے دھابے پہ دیکھا جا سکتا ہے.
جہاں عجب شانِ استغنائی، عجب جذبہءِ خودی کی طمطراق، سر کے بالوں سا پھیلائے سفید ہومیو پیتھ سگریٹوں پر کش در کش حملہ آور رہتا ہے.
اقبال سے قطعا متاثر نہیں ہے لیکن اقبال کے شاہین سے اس قدر متاثر ہے کہ مکمل اقبالی شاہین کا عملی نمونہ بن چکا ہے، یعنی دوربین، دانشمند، شان استغنا، مردہ دماغوں کا شکار نہ کرنا اور خود انحصاری کی اتیت و سندر اونچائی پر متمکن خود کو ملامتی صوفی کہہ کر کئی شرارتی صوفیوں کی ناک "تک” میں دم کیے ہوئے ہے.
روزانہ کم و بیش سو دو سو انسانوں کی نیند حرام کرنے کے لیے پانچ سات واہی تباہی دور مار جملے فائر کر کے خراٹوں کا گلستان آباد کرتا ہے. اور صبح آنکھ کھلتے ہیں صبح جاگنے کی دعا کے دوران ہی اگلے دن کی تخریب بازی کا خاکہ تیار کر لیتا ہے.
قدرت نے اسے ملتان کی مٹی سے بنایا تھا جو یقینا کھنکتی تھی، اس نے اپنی مٹی پر محنت کی اور اسے کھنک دار سے تبدل کر کے کھڑاک دار کر لیا ہے لہذا صلاح الدین درویش روزانہ دس پندرہ دانش ور کھڑکا کر لنچ کا لطف لیتا ہے.
بظاہر سانولا لیکن غیر سلونا، یاروں کا کمینگی کی حد تک یار، اور غیر ملاقاتی شخص کے لیے سخت خول خود پر چڑھائے رکھنے والا شخص اندر سے انتہائی نرم، بلکہ لذیز ہے.
اس کی شخصیت کو آپ ایک شان دار اخروٹ سے بہترین تشبیہہ دے سکتے ہیں، اس کام میں ناریل بھی مفید ہے لیکن اخروٹ کی شکل چونکہ دماغ کے جیسی ہے اور یہ اپنے ہتھوڑا جاتی جملوں کے حملے اخروٹی شکل کے انسانی عضو پر زیادہ کرتا ہے لہذا اس کا علاج ہے کہ اس کی شخصیت کو اخروٹ سمجھ کر سمجھایا جاوے
باہر سخت خول رک جا، ٹھہر جا، ہٹ جا کی محسوسات دیتا اندر سے نہایت شیریں، میٹھا اور لذیذ ہے. لیکن اس کے لیے آپ کو کوشش کر کے اس کا خول توڑنا ہو گا، اب خول توڑنے کی ترکیب آپ کی اپنی ہے. درست جگہ پر چوٹ پڑے تو پہلی ہی ملاقات میں اندر کا معصوم، اور وسیع القلب درویش باہر آ جاتا ہے، وگرنہ لگے رہیں اور یہ نہایت کمینی مسکراہٹ کے کچوکے لگا لگا کر آپ کو زخمی کرتا رہے گا.
دوستوں کی خامیوں کو استعمال قطعا نہیں کرتا نہ ہی یاد رکھتا ہے یہ ایک بہت کمیاب خوبی ہے مگر دوستوں میں نت نئی خامیوں کی تلاش اس کا شوق، مجبوری یا عادت نہیں ٹھرک بھی ہے. اور اس کے لیے درویش کسی قسم کی ٹوہ بازی کیے بنا فقط دو جملوں کو درست زاویے پر رکھ کر ایسا بھالا پھینکے گا کہ آپ اپنی ایک تازہ ترین خامی اس کے کھلے ہاتھوں میں رکھ کر سگریٹ سلگاتے ہوئے دو چار راؤنڈ جملیانہ برسٹس کے کھا چکے ہوں گے.
درویش دراصل کہیں اس سماج سے بدلہ ہے تو کہیں سماج کا علاج ہے
اسلام آباد میں بسم اللہ دھابہ سے ابھرنے والی ادبی تہذیب بظاہر اختر عثمان کی مرہون منت ہے لیکن اس تہذیب کی رنگا رنگی. رونق اور مشتعل مزاجی صلاح الدین درویش کے دم سے ہے.
اقبال کے شاہین جیسا زاویہ نگاہ رکھنے والا درویش ہر اس بات کا رد بآسانی پیش بآسانی پیش کر دیتا ہے جو "اُس وقت” اسے خوش نہ آ رہی ہو چاہے فقط آدھ گھنٹہ قبل اس بات کے حق میں چھ سگریٹ دلائل بھی دے چکا ہو، خیر وہ ادیب اور دانش ور ہی کیا جسے اپنے پھیپھڑوں کی فکر ہو، صحت کا ازحد خیال کرنے والا درویش سر شام منہ پر ماسک پہن کر سگریٹ سے سگریٹ سلگاتا پوسٹ پوسٹ ماڈرن ازم کا وائرس اسلام آباد کے نوعمر دماغوں میں اپنی ہتھوڑیائی سرنجوں سے انڈیل رہا ہے جو مستقبل میں کسی بڑے ادبی بدلاؤ کا پیش خیمہ ثابت ہوں گے، اگر اسے ایسی تخریب کاری سے نہ روکا گیا تو وہ وقت دور نہیں جب اردو کا شاعر منہ میں مسواک، ہاتھ میں حقہ اور گلے میں گٹار لیے مشاعراتی چبوترے پہ بانگیں دے رہا ہوں گا۔