یہاں ابا جی سے مراد میرے ’’دادا ابو‘‘ ہیں جن میں شفقت،محبت اور خلوص کوٹ کوٹ کر بھرے تھے ابا جی کا نام رانا حاجی عبدالغفار تھا ۔ہم دادا ابو کو ابا جی اس لئے کہتے تھے کیوں کہ میرے والد صاحب اور ان کے تمام بھائی ان کو ابا جی کہہ کر بات کیاکرتے تھے اورگھر میں پیدا ہونے والا ہربچہ جو لفظ پہلی بار بولتا وہ ’’ابا‘‘ ہی تھا ۔یہی وجہ تھی کہ ہمارے خاندان کا ہر بچہ ان کوآج بھی ابا جی کہہ کر یاد کرتا ہے۔
ہم گاوں میں رہتے تھے اور میرے ابا جی گاوں کے معززین میں سے ایک تھے گاوں کی بہت سی ذمہ داریاں ان کے سر تھیں جن کو وہ بخوبی نبھاتے تھے۔
ابا جی نے دو شادیاں کر رکھی تھیں،ان کی پہلی شادی ماموں کی بیٹی سے ہوئی جو ان کی ہم عمر تھیں مگر اولاد نہ ہونے کے سبب اٹھارہ سال بعد میری دادی(اماں) سے شادی ہوئی جو انہی کی برادری سے تعلق رکھتی ہیں اور میرے ابا جی سے عمر میں بیس سال چھوٹی ہیں جن سے پانچ بیٹے اور تین بیٹیاں پیدا ہوئیں۔
ابا جی نہایت وضع دار اور سنت کے مطابق زندگی بسر کرنے والے شخص تھے،تہجد اورپانچ وقت کی نماز بانوے سال کی عمر تک باقاعدگی سے با جماعت ادا کرتے رہے بعض اوقات تہجد گھر میں ہی ادا کر لیا کرتے تھے اور رمضان کے مکمل روزے رکھتے تھے نماز کی عادت ابا جی کو آٹھ سال کی عمر سے ہی پڑ گئی تھی۔جب ان کی عمر بانوے سال ہوئی تو وہ اماں سے کہنے لگے کہـ’’مجھ سے اب نمازٹھیک سے ادا نہیں ہوتی زبان سے پڑھتا کچھ ہوں نکلتا کچھ ہے ‘‘اس کے بعد سے وہ نماز گھر میں ادا کرنے لگے۔
ان کی زندگی کا معمول تھا سردی ہو یا گرمی تہجد کے وقت اٹھتے نماز ادا کرتے ،قرآن پڑھتے اور فجر ادا کر کے ہلکا پھلکا ناشتہ کرتے اور سورج نکلنے سے پہلے ہی ڈیرے پر چلے جاتے اور وہاں سے قریب ہی ان کے دوست (عنـــــّو)کا ڈیرہ بھی تھا ان کے ہاں چلے جاتے یہ دوست بھی ابا جی کی طرح نفیس اور شفقت والے تھے،حسبِ معمول دو سے تین گھنٹے ان سے زمینوں کے متعلق باتیں کرتے اور ظہر کی نماز سے پہلے گھر لوٹ آتے فریش ہوکر دوپہر کا کھانا کھاتے،جس میں میٹھی گُڑ کی روٹی اور گوشت کا سالن شامل تھے،جس سے میری اماں یعنی میری دادی بہت تنگ تھی کہ یہ انسان اپنا ذائقہ نہیں بدلتا ہر روزکا وہی کھانا،اس کے بعد اباجی کھانا کھا کر نماز کے لئے چلے جاتے تھے اور گھر واپس آکر ہر روز کی طرح دو گھنٹے کے لئے سو جاتے تھے پھر عصر کی نماز کے لئے چل پڑتے اور مسجد سے سیدھا بازار چلے جاتے جہاں میرے چچا کی دکان تھی وہ بلاناغہ عصر سے فارغ ہوکر وہیں جاتے اور دکان پر ہی بیٹھ جاتے اس کے بعد مغرب ادا کر کے گھر آتے اور سب بچوں کو جمع کر کے پرانی باتیں سناتے،پھر رات کا کھانا کھا کر عشاء کی نماز ادا کر کے آتے اور سو جاتے۔
میرے ابا جی کو چائے بہت پسند تھی وہ اکژ رات کے دو بجے اٹھ کر بھی چائے مانگ لیا کرتے تھے میری اماں ان سے بیس سال چھوٹی تھی تو انہوں نے ابا جی کا ہمیشہ خیال رکھا ،چائے اور سگرٹ کی عادت ابا جی کو جوانی سے تھی وہ جب بھی چائے پیتے میں ان کے پاس جا کر بیٹھ جاتی ۔ان کی چائے کے آخری چند گھونٹ میرے ہو تے تھے وہ بڑے پیار سے مجھے چائے دیتے اور میں پی جاتی،یہی وجہ ہے کہ میں چائے کے معاملے میں ابا جی پر گئی ہوں۔
میرا نام رمشاء ہے جب میں ساتویں جماعت میں پڑھتی تھی تو ابا جی نے میرے نام پر اعتراض کیا اور کہا کہ تبدیل کر کے رمیشہ رکھو وہ مجھے رمیشہ کہہ کر بلاتے تھے ۔تب میں نے بہت کو شش کی کہ نام تبدیل ہو جائے مگر وہی ب فارم اور یونین کونسل کے ڈرامے،مگر گھر والوں نے اپنے طور پر مجھے رمیشہ کہنا شروع کر دیا تھا۔
ایک دفعہ اماں اپنے مائیکے گئی ہوئی تھیں جو ہمارے ہی گاوں میں تھا ان کے بھتیجے کی شادی تھی جس میں اماں کا شامل ہونا بہت ضروری تھا،خیر ابا جی ڈیرے سے واپس آئے تو اماں کو غائب پاکر بہت غصہ ہوئے کیوں کہ ابا جی کو شروع سے ہی اپنے سسرال والوں سے عجیب سی چڑ تھی۔ حالاں کہ اماں کے دو بھائی تھے اور دونوں ہی بہت عزت کرتے تھے۔ابا جی نے کہا کہ اگر جانا ہی تھا تو بتا تودیتی تا کہ میں بھی ساتھ چلتا۔ اب ان کو موقع مل جائے گا بات کرنے کا کہ حاجی صاحب جان بوجھ کر نہیں آئے،تیری دادی مجھے بے عزت کرنے کا کوئی موقع نہیں جانے دیتی۔ اتنی دفعہ سمجھایا ہے اس عورت کو مگر نہیں اس کو تو اپنے بھائی پیارے ہیں بس۔
آجانے دو میں بھی آج کھانا نہیں کھاوں گا۔ابا جی کی عادت تھی کہ جب بھی اماں سے بحث ہوتی یا ناراض ہوتے تو کھانا نہ کھاتے۔میں چپ چاپ ان کے پائوں دباتی رہتی اور اثبات میں سر ہلاتی جاتی۔جس کے بعد وہ مجھے انعام سے نوازتے جو کہ پیسوں کی شکل میں ہوتا اور میرے قدم ہوا میں۔
ٓاماں شادی سے واپس آئی تو اس رات گھر میں جگ راتا ہوا ایک طرف اماں تو دوسری طرف ابا جی۔اماں زیادہ غصہ کرتی تھیں کیوں کی ابا جی کوبڑھتی عمر کے سبب کم سنائی دیتا تھااسی وجہ سے ہر باریہی ہوتا کہ ابا جی ،جی بھر کراپنی بول کر ا خبار میں مصروف ہوجاتے اُدھر اماں اندر ہی اندر جل کر بول بول کرنڈھال ہوجاتی آخرمیں یہی کہہ کر خاموش ہو جاتی کہ اپنی تو آرام سے سنا دی اب میری بھی سن نا۔
زندگی یونہی گزر رہی تھی نوک جھونک اور پیار میں۔ابا جی کی عمر پچانوے سال ہوگئی تھی ایک دن ابا جی روز کی طرح ناشتہ کر کے صبح سویرے ڈیرے پر چلے گئے وہاں جا کر ان کی طبیعت ذرا خراب ہوئی چکر آئے اور گِر پڑے تایا ابو اور چچا جا کر انہیں گھر لائے سب سخت پریشان تھے کہ گھر سے تو بل کُل ٹھیک گئے تھے حالت کیسے بگڑگئی۔جب ان کو گھر لایا گیا تو وہ بے ہوش تھے ان کو بے ہوش دیکھ کر ایک ایک سانس آنسو بن کر نکل رہا تھا زندگی الجھ گئی تھی جسم کانپ رہا تھا گھر کی روح چارپائی پر بے سود پڑی تھی سارا گھر دکھ میں ڈوب چکا تھا،کچھ دیر میں ڈاکٹر رانا آگئے جو ابا جی کے بیسٹ فرینڈ تھے انہوں نے ایم بی بی ایس کر رکھا تھا ان کا چیک اپ کرتے ہوئے وہ رو رہے تھے۔جب انہوں نے بتایا کہ بی پی کم ہوا ہے اور بخار ہے کل تک ٹھیک ہو جائیں گے تو کچھ آسرا ہوا،مگر ایک دن گزرا دوسرا گزرا ان کی حالت بگڑتی چلی گئی۔
سرگودھا،اسلام آبادکے اسپتالوں میں زیرِ علاج رہے مگر کوئی آفاقہ نہ ہوا،اسی دوران دوائیوں سے جگر کا مسئلہ بن گیا اس سلسلے کو آٹھ ماہ گزر گئے تمام گھر والوں ،میری اماں اور بڑی دادی نے مل کر خوب خدمت کی مگر جب موت آتی ہے تو بہانہ بن ہی جاتا ہے،انہی بیماریوں سے لڑتے لڑتے وہ جمعے کے دن تئیس اگست ـ۲۰۱۲ کو اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ان کی وفات کے وقت تمام خاندان ان کے چاروں طرف موجود تھا ان کی سانسیں میرے تایا ابو جی کی گود میں سر رکھ دم توڑ رہی تھیں تایا جی نے بلند آواز میں ابا جی کے کان میں کلمہ پڑھا تو ابا جی کی زبان پربھی کلمہ جاری ہوگیا اور آخری سانس تک وہ کلمہ پڑھتے رہے،وہ وقت ہمارا سب کچھ چھین رہا تھا مگر سب بے بس کھڑے رو رہے تھے اور ہماری آنکھوں کے سامنے ابا جی کی روح ان کے جسم کو چھوڑ کر خدا سے جا ملی۔خدا میرے ابا جی کو جنت میں اعلٰی مقام عطا فرمائے(آمین)۔