مری اب فقط ایک خواہش ھے
یہ آخری میری خواہش ھے
ماں کا بنایا ہوا کھانا
کھاؤں،
میں
ماں کے پکاتے ہوے قہوے کا گھونٹ بھر لوں
میں
لمسِ مقدّس کو محسوس کر لوں
کہ بھرتی چلی آتی ہیں
میرے بچپن کی یادیں
یہ جاں لیوا احساس ھے
جو مجھے مارتا ھے
میں، کیسے بھلا
اپنے جیون کا قرضہ چکاؤں
میں، کیسے بھلا
من کے پاکیزہ اشکوں کی قیمت چکاؤں !
اگر
واپسی میری قسمت میں لکھی ھے
ماں
اپنی پلکوں کے پیچھے
چھپانا مجھے
مری میّت کو اس گھاس سے ڈھانپ دینا
جہاں پاؤں ترے پڑے
ماں
مجھے باندھنا
کس کے بالوں سے
اور اس دھاگے سے
ترے کپڑوں کے نیچے جو لٹکا ہوا ھے
اگر
واپسی میری قسمت میں لکھی ھے
قہوے کی خاطر
مری ہڈیوں کو جلانا
مجھے تار کی شکل میں
اپنی چھت پر لگانا
وہاں جا کے کپڑے سکھانا !
بہت بوڑھا اب ہو چکا ہوں
مجھے،
میرے بچپن کے روشن ستارے
دکھانا، دکھانا وہ رستہ
جو ماں تک پہچتا ھے !!!