خلیل جبران کی نظم سیلف نالج (خود شناسی )۔۔۔۔۔۔۔ ترجمہ : سلمیٰ جیلانی
کسی نے سوال کیا ، خود شناسی کیا ہے ؟
اس نے جواب دیا
تمہارے دل اپنی خاموشی میں
دنوں اور راتوں میں چھپے رازوں سے بخوبی آگاہ ہیں
پھر بھی تمہیں
اپنے دل کی اس آگاہی کی آواز کو
اپنے کانوں سے سننے کی چاہ ہے
تم الفاظ کی صورت میں وہ جاننے کے خواہش مند ہو
جو تمھاری سوچ ہمیشہ سے جانتی ہے
تم اپنی انگلیوں سے اپنے برہنہ خوابوں کے لمس کو
محسوس کرنا چاہتے ہو
اور ایسا چاہنے میں کوئی حرج بھی نہیں –
تمھاری روح میں پوشیدہ چشمے کو آگے بڑھ کر
بحر کی گہرائیوں سے سرگوشیاں کرنی چاہیں
تب ہی اپنی روح کی اتھاہ گہرائیاں تم پر عیاں ہوں گی
اپنے اندر کے اس خزانے کو
کسی پیمانے سے ماپا نہیں جا سکتا –
اس کی گہرائی کو کسی عصا یا آواز کی لہروں کے سہارے تلاش نہ کرو
یہ خود اپنے آپ میں ایک بے پایاں وسیع بحر ہے۔
یہ نہ کہو کہ "میں نے سچ کو پا لیا ” ، بلکہ یوں کہو ، "مجھے ایک سچائی ملی ۔”
یہ مت کہو کہ مجھے وہ راہ مل گئی ہے۔جس پہ میری روح گامزن ہے
بلکہ یوں کہو ، "میں اپنے راستے پر چلتے ہوئے اپنی روح سے ملا ہوں۔”
کیونکہ روح تو تمام راہوں پر چلتی ہے۔
روح کسی پہلے سے طے شدہ پگڈنڈی پر نہیں چلتی ،
اور نہ ہی وہ ایک کھوکھلے تنے والے درخت کی طرح تیزی پنپتی ہے۔
روح ایک ایسا کنول ہے
جو اپنی شمار پنکھڑیوں کے ساتھ کھلتا ہی رہتا ہے-