(07مئی یومِ وفات کے موقع پر خصوصی تحریر )
ضلع بارہ بنکی اتر پردیش کی راج دھانی لکھنئو کے قرب میں واقع ہے اس ضلع کی ہمیشہ اپنی ایک الگ شناخت رہی ہے اس ضلع نے ہر شعبہ حیات میں ایسی نابغہ روزگار شخصیتوں کو جنم دیا ہے جنہوں نے اپنے فن و کمال سے اس ضلع کا پورے ملک کا نام روشن کیا ہے۔ اسی ضلع کے قصبہ دریا باد کو مولانا عبدالماجد دریابادی ؒ کا وطن ہونے کا فخر حاصل ہے جنہوں نے علم، صحافت ،ادب،فلسفہ اور تفسیر قرآن میں شہرت پائی۔ آبروئے غزل خمارؔ بارہ بنکوی کو عالمی شہرت حاصل ہوئی۔ اودھ کے نوابین کے دور مین لکھنئو تہذیب اور ادب کا بڑا مرکز تھا۔ اودھ کے قصبات تک اس کی ضیاء سے منور تھے۔ ان قصبات میں اردو زبان و ادب کے بہت سے ایسے شیدائی رہے ہیں جنہوں نے شعر و ادب کی آبیاری میں عمریں گذار دیں پورے خلوص کے ساتھ اور بغیر کی سلے کی تمنا کئے، نام و نمود کی خواہش سے بے نیازہوکر۔ شعر و ادب کے انہیں بے لوث خادموں میں ایک منفرد اور ممتاز نام حضرتِ عزیزؔ بارہ بنکوی کا ہے۔ استاداشعراء عزیزؔ بارہ بنکوی نے شعر و سخن کو ایک نئی روشنی عطاء کی ۔ان کا آبا ئی وطن قصبہ سبیحہ ضلع بارہ بنکی تھا سنِ پیدائیش تعلیمی اسناد کے مطابق جولائی ۱۹۱۰ء ہے۔ والد کا نام شیخ عبدا لصمد تھا جو محکمہ پولیس کی ملازمت کے باعث اکثر باہر رہا کرتے تھے۔ حالانکہ ان کی پیدائیش باندہ میں ہوئی لیکن عمر کا بیشتر حصہ آبائی وطن ضلع بارہ بنکی میں گزرا۔ ابتدائی تعلیم مدرسے میں ہوئی بعد میں مشہورِ زمانہ دینی درسگاہ دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنو میں بھی زیرِ تعلیم رہنے کا شرف حاصل ہوا۔ اسی دوران طالب علمی میں ا ن کے حضرت مولانا ابوا لحسن علی ندوی سے دوستانہ مراسم اسطوار ہوئے ۔ جس کا ا عتراف مولانا نے عزیز صاحب کے نعتیہ کلام کے مجموعہ ـــــ’’ فاراں کی بلندی سے‘‘ کی تقریظ میں کیا ہے۔ ذریہء معاش کے طور پر مختلف ملازمتیں اختیار کیں عمر کے آخری کچھ برس دفتر سب رجسٹرار بارہ بنکی میں بطور عرائیض نویس گذارے۔شاعری کا ایسا جنون تھا کہ مسافت آڑے نہ آتی اصلاحِ سخن کی غرض سے پیدل یا سائیکل سے میلوں سفر کرتے ۔ طویل عمر پائی تقریباََ ساٹھ سال کا عرصہ شعر و ادب کی خدمت میں گذارا ۔ کبھی معاشی آسودگی حاصل نہ ہوئی لیکن شخصیت ایسی با وقارکہ کہ خمارؔ بارہ بنکوی اور شمسی مینائی جیسے حضرات ان کا بے حد احترام کرتے تھے۔ اپنی شاعری کے آغاز کے متعلق عزیز صاحب رقمطراز ہیں،
’’ میری شاعری کا باقاعدہ آغاز ۱۹۴۷ء میں ہوا۔ ملک کے دیگر مشاہیر اضلاع اور شہروں کے مشاعروں میں شرکت کا موقع ملا اس کے علاوہ لکھنو کے معتدد طرحی اور غیر طرحی مشاعروں میں شرکت کا اتفاق ہوا اور اس سورت سے لسان ا لحقیقت حضرت مولانا سید افقر موہانی وارثی مرحوم کی نگاہِ کرم ہوئی چنانچہ آخر وقت مولانا نے مجھے اپنا جانشین یہ فرماتے ہوئے منتخب فرمایا۔۔۔’’ سپردم بتومایہء خویش را‘‘
افقر موہانی نہایت ذودگو شاعر تھے۔ مصرع طرح پر خواہ کتنی ہی سخت زمین ہو ڈیڑھ دو سو اشعار کہنے کے بعد بہترین؛ بہتر اور معمولی قسموں کا تعین کرتے۔قسموں کیے مطابق لال ہرے اور زرد قلم سے نشان زد کرتے اور شاگردوں کو انکی اہلیت کے مطابق ہر رنگ کے دو دو ، تین تین اشعار دیکر غزل پوری کراتے۔ عزیز بارہ بنکوی نے اس جانشینی کا حق ادا کرنے میں کوئی کثر نہ اٹھا رکھی ۔ بزم افقر قائم کی جس میں ان کے شاگرد افقر موہانی انکے دست راست رہے یہ بزم ابھی تک فعال ہے۔ اردو کی خدمت انکا نصب ا لعین تھا۔ شاعری کے رموز و نکات سے مکمل آ گہی اور فن عروض پر مکمل دسترس کے باوجود نیم خواندہ مبتدین کی اصلاح کا انکا اپنا منفرد طریقہ تھا۔ اوزان اور بحور کے متعلق بھاری بھرکم اصتلاحوں کا مطلب سمجھانے کے بجائے آہنگ کی بنیاد پر شعر کہنے کی عادت ڈلواتے۔ اور یہ تجربہ مترنم بحروں میں نہایت کامیاب رہتا اور شاگرد قلیل عرصہ میں بے عیب اشعار کہنے کی صلاحیت حاصل کر لیتے۔
عزیز بارہ بنکوی اپنے ہم عصر شعرا کی طرح روایتی غزل کے پیرو تھے۔ انکی شاعری اور ترقی پسند تحریک بھی ہم عصر تھیں۔ ترقی پسند تحریک عروج پر تھی۔ بارہ بنکی کے ایک بڑے شاعر مجاؔز جنکی شہرت ملک کے گوشہ گوشہ میں پہونچی ہوئی تھی، آنچل کو پرچم بنالینے کی تلقین کر رہے تھے۔بڑے بڑے اسیرانِ زلفِ غزل جدیدیت اور ترقی پسندی کی دوڑ میں شامل تھے ۔، حسرت بھی متاثر تھے۔ لیکن عزیز صاحب کا روایتی غزل پر ایمان غیر متزلزل رہا۔غمِ جاناں اور غمِ دوراں کا توازن برقرار رہا۔جہاں تک انکی قادرالکلامی کا سوال ہے وہ شک و شبہ سے بالاتر ہے جسکی روشن مثالیں مشاہیر کی مقبول غزلوں کی مشکل زمینوں پر کہے گئے انکے اشعار ہیں جیسے۔
٭
اپنا دیوانہ بنا کر لاج رکھ لی آپ نے
ورنہ یہ دنیا سمجھتی اپنا دیوانہ مجھے
٭
ہم ہیں امینِ دولتِ غم اس لیے عزیزؔ
’سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے‘
عزیز صاحب کی ایک اور خصوصیت جس کا یہ خاکسار بھی گواہ ہے، وہ یہ کہ ذاتی محفلوں یا احباب کے ساتھ گفتگو ہمیشہ اودھ کی مضافاتی زبان میں ہی کرتے جسے عرفِ عام میں ’’ ـ کچی بولی‘‘ کہا جاتا ہے ، جس کی شیرینی اور لطافت مسلمہ ہے ا ور مخاطب کو اپنائیت کا احساس ہوتا ہے۔ ان کی اتنی طویل شعری مسافت کا حاصل ہماری نظر کے سامنے دو مختصر مجموعوں کی شکل میں ہے۔ ایک نعتیہ کلام کا مجموعہ’’ فاراں کی بلندی سے‘‘ اور دوسرا غزلوں پر مشتمل مجموعہ ’’کیفِ غم ‘‘ اور یہ انکی کم گوئی کا نہیں بلکہ سخاوت اور عطا کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔ انکی انکساری اور فراخ دلی نے شاگرد بننے کے کسی خواہش مند کو کبھی مایوس نہیں کیا۔ شاگردوں کی اس کثیر تعداد میں خواندہ، ناخواندہ، نیم خواندہ، اہل اور نا اہل سبھی طرح کے لوگ شامل تھے۔ شاگردوں کا یوں تو شمار ممکن نہیں لیکن کچھ اہم نام جیسے رضواں بارہ بنکوی، مراد بارہ بنکوی، طارق انصاری، ڈاکٹر عرفان بارہ بنکوی، محسن قدوائی ، عمران انواروی، ڈاکٹر کوثر مسولوی، فیضی مظاہری فتحپوری، مولانا سلمان اطہر بارہ بنکوی، نشتر جرولی، طیب عثمانی محمودآبادی، راجو راز،شیلیندر بچن،نصیر ی انصاری ، نور بارہ بنکوی، صغیر نوری، رادھیکا پرساد اور ہاشم علی ہاشم بارہ بنکوی کے نام قابلِ ذکر ہیں۔
جہاں تک عزیز بارہ بنکوی کے نعتیہ کلام کا تعلق ہے اسکے لئے حضرت مولانا ابولحسن علی ندوی کی سند ہی کافی ہے، حضرت مولانا رقم طراز ہیں۔ ’’ میرے دوست عزیز بارہ بنکوی نے اپنی نعتوں کا مجموعہ مرتب کیا ہے، میں نے ان نعتوں میں انکے جوش عقیدت کی جھلک دیکھی۔ کلام رواں سلیس اور جذبات محبت سے پر ہے الفاظ آسان اور شیریں ہیں۔ نعت میں دور از کار باتیں نہیں کہیں ہیں، رسول صلؑم سے بے پناہ عقیدت، نیاز مندی جو ایک بندہء مومن کا سرمایہ ہے ، ان کے کلام سے نمایاں ہے۔‘‘
کیفِ غم سے منتخب کچھ اشعار پیش ہیں جن میں روایات کی پاسداری بھی ہے، علامات و تراکیب بھی غزل کی ہیں لیکن موضوع اور مضامین منفرد ہیں۔ وہ سماجی کشمکش اور سیاسی حالا ت کا ادراک بھی رکھتے ہیں۔
کچھ غم نہیں جو گردشِ دوراں سے ٹھنی ہے
دامن مرا خالی ہے مگر دل تو غنی ہے
٭
حدودِ کوئے جاناں سر کے بل طے کرنے والوں سے
ہوا پہلے سوالِ آبلہ پائی تو کیا ہوگا
٭
یا نذر حوادث ہو یا زیست سنور جائے
جو کچھ بھی گزرنا ہے اک بار گزر جائے
٭
نگاہِ یار جب دل پر اثر انداز ہوتی ہے
دھڑکتا ہے مگر سہمی ہوئی آواز ہوتی ہے
عزیز بارہ بنکوی صاحب کا ۹۱ سال کی عمر میں ۷ مئی ۲۰۰۱ء کو انتقال ہوا، ان کے شاگرد رشید ہاشم علی ہاشم کی کاوشوں سے دبستانِ عزیز کے نام سے ایک بزم کاقیام عزیزبارہ بنکوی صاحب کی حیات میں ہی عمل میں آگیا تھا اس کی ہر نشست کا مصرع طرح الگ بحر میں دیا جاتا ہے، اور ان کے جانشین الحاج نصیر انصاری بارہ بنکوی کی قائم کردہ بزمِ عزیز کی ماہانہ نشستیں اب بھی جاری ہیں ، بزم عزیز نے ادبی خدمات کے لئے شعراء کو عزیز بارہ بنکوی اوارڈدینے کا سلسلہ شروع کیا تھا یہ سلسلہ تقریباََ دس برس تک جاری رہا۔ یہ بزمیںشعرو ادب کی خدمت میں عزیز بارہ بنکوی صاحب کے مشن کو آگے بڑھا رہی ہیں۔ صغیر نوری صاحب نے انکے مجموعہ کیفِ غم کواردو اور ہندی میں بیک وقت شایع کر کے اپنی محبت کا ثبوت دیا ہے۔ باعثِ مسرت ہے کہ بارہ بنکی کے لوگوں نے خصوصاََ ان کے شاگردانِ رشید نے اپنی ذود فراموشی کی روایات سے انحراف کرتے ہوئے ان کو فراموش نہیں کیا ہے اور ہر سال ان کے یومِ وفات پر ایک یادگاری تقریب منعقد کرتے آ رہے ہیں۔ امید ہے کہ عزیز بارہ بنکوی صاحب کو شعر و ادب کے بے لو ث خادم کے طور پر مدتوں یاد رکھا جائیگا۔
٭٭