(نوٹ : یہ سروے رپورٹ ڈاکٹر ناصر عباس نیّر صاحب کی زیرِ نگرانی تکمیل پذیر ہوئی اس میں تمام حقائق مصدقہ ہیں اور باقاعدہ سروے کر کے حاصل کئے گئے ہیں۔ )
دور حاضر میں جب ہم اردو تحقیق کے پیرا ڈایم پر ایک نظر ڈالتے ہیں تو ہمارے سامنے تحقیق کے تین پیراڈایم آتے ہیں ۔
۱۔ ثبوتیت
۲۔ ردثبوتیت
۳۔ تنقیدی کی تھیوری
ثبوتیت کے پیرا ڈایم میں ہم اپنی تحقیق حقائق کی تلاش تک رکھتے ہیں۔ جبکہ ردثبوتیت میں حقائق کی توضیح بذریعہ تصیح وتصدیق کرتے ہیں اور یہ دیکھنے ہیںکہ جو شواہد اور ثبوت فراہم کئے گئے ہیںوہ کس حد تک حقائق تک رسائی کا ذریعہ ثابت ہوتے ہیں تحقیق کا تیسرا پیراڈایم تنقیدی تھیوری کے نام سے موسوم ہے جن میں حقائق کی تلاش اورتصیح وتصدیق سے آگےکامرحلہ شروع ہوتا ہے جس میںتعبیر وشرح کے ذریعے نئے وژن اور علم کی تخلیق ممکن ہوتی ہے۔
ڈاکٹر ناصر عباس نیر صاحب نے اپنے تحقیقی مقالے ’’اردو تحقیق کے پیرا ڈایم پر ایک نظر :سماجی سائنسوں کے پیراڈیم کی روشنی میں ۔ تحقیق کے پیراڈیم کی وضاحت کی ہے ۔وہ لکھتے ہیں۔
’’ہر شعبہ علم کے پاس ’’نظر‘‘ ہوتی ہے اسی نظر کی سیادت میں وہ اپنے مقاصد طے کرتا ہے ان مقاصد کے حصول میں کامیابی وناکامی کا جائزہ لیتا اور مقاصد کی تکمیل کے بعد نتائج ومضمرات پر غور کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہی ’’نظر ‘‘ کسی شعبہ علم کو شناخت دیتی ہے اور اس شناخت کو برقرار رکھنے کا سامان کرتی اور اسکی روایت تشکیل دیتی ہے اس ’’ نظر‘‘کا کردار کسی شعبہ علم کے سلسلے میں وہی ہوتا ہے۔ جوزبان کے سلسلے میں گرامر کا ہے ۔ نئی اصطلاح میں اسے پیراڈایم بھی کہا جاسکتا ہے اردو تحقیق کے پاس بھی ’’نظر ‘‘ ہے یا اردو تحقیق کی بھی ایک گرامر ہے اور اس کے پیرا ڈایم ہیں تحقیق کے پیرا ڈایم پر روشنی ڈالنے کے بعد ہم اپنے اصل موضوع کی طرف آتے ہیں ہمارا موضوع’’ اساتذہ اردو میں مطالعہ کارجحان‘‘ہے موضوع کے انتخاب سے لیکر نتائج کے استخراج تک کے مراحل کی مختصر سی وضاحت یہ ہے۔ سب سے پہلے ہم نے موضوع کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک سوالنامہ تیار کیا۔
جس میں درج ذیل سوالات رکھے
۱۔ آپ شعبہ تدریس سے کب منسلک ہوئے ؟
۲۔ اردو سے آپ کا تعلق کتنا پرانا ہے؟
۳۔ آپ نے تقربیاً کتنی کتب پڑھ ڈالی ہیں ؟
۴۔ آپ نظم یا نثرمیں سے کس کو زیادہ پڑھتے ہیں؟
۵۔ آپ نے آخری کتاب کس صنف کی پڑھی ؟
۶۔ کیا آپ ایک قاری ہی ہیں یا ادیب بھی ؟
۷۔ آپ کا تحقیقی یا تنقیدی مقالہ /مضمون چھپا ہے؟
۸۔ اردو ادب کے علاوہ کس زباں کے ادب میںدلچسپی رکھتے ہیں ؟
۹۔ ادب اور مطالعے کے فروغ کے لیے آپ کیا تجاویز دیں گے ؟
اس موضوع پر تحقیقی یا تنقیدی کام کی ابتدا کرنے کے لیے جو سب سے پہلا سوال ترتیب دیے گئے سوالنامے میں پوچھا گیا تھا وہ تھا آپ شعبہ تدریس سے کب منسلک ہوئے ؟اس سوال کا مقصد اس امر کی تحقیق اور جستجو تھا کہ جا نا جاسکے کہ ادب کی تدریس سے منسلک اساتذہ میں ملازمت کے حوالے سے شعبہ اردو سے وابستہ ہونے کا رجحان کس قدر تھا۔ اس کی علاوہ اس سوال کی مدد سے انھیں اپنے اساتذہ کا تدریسی تجربہ اور مشاہدہ جاننے کا بھی موقع ملا اس سلسلے میں 3 ادوار بنائے گے
پہلا دور 1978___1990 ء
دوسرا دور 2002 ء 1991___ ء
تیسرا دور حال تا 2002 ء
اس سوال کے جو جوابات سامنے آئے ان میں 25 اساتذہ میں سے 4 اساتذہ 1978-1990 ء کے دوران شعبہ تدریس سے منسلک ہوئے اسطرح اسکا تناسب 16%رہاہے جبکہ 1991-2002 ء کے دوران شعبہ اردو سے وابستہ ہونے والے اساتذہ کی تعداد 8اورتناسب 32%رہا اور جو اساتذہ 2002ء سے تاحال وابستہ ہوئے ان کی تعداد 13تھی اور یہ تناسب 25اساتذہ میں سے 52% رہا جس سے یہ امر سامنے آتا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اردو ادب کی تدریس سے وابستہ اساتذہ کی تعداد بتدریج اضافے کی طرف گئی ہے جو اس بات کی بھی غماز ہے کہ وقت کی روانی نے اردو ادب سے وابستگی کے رجحان میں اضافے کو جنم دیا ہے جو ایک حوصلہ افزاء بات ہے ۔
اس موضوع پر سوالنا مے میں دوسرا سوال تھا اردو ادب سے آپ کا تعلق کتنا پرانا ہے‘‘
اس سوال کا مقصد اس بات کی تحقیق کرنا تھا کہ اساتذہ اردو میں اردو کی طرف رجحان کب سے ہے؟ اس سلسلے میں جو جوابات سامنے آئے ان کی روشنی میں ہم نے 3 سطحیں بنائیں۔
۱۔ پہلی سطح بچپن سے یا پرائمری کلاس تک
۲۔ دوسری سطح پرائمری سے میٹرک کے درمیان تک
۳۔ تیسری سطح ایف۔ اے سے ، بی اے یا ایم اے کے درمیان تک
رجحان کو جانچنے کے پیمانے اور جوابات سے اس امر کی تصدیق ہوئی کہ ایسے اساتذہ جن میں اردو کا رجحان بچپن سے پرائمری کلاس تک کے درمیان پیدا ہوا ان کی تعداد سب سے زیادہ تھی یہ تعداد 25 میں سے 17 تھی اور ان کا تناسب 68% بنتا ہے دوسری سطح چونکہ پرائمری سے لیکر میٹرک کی کلاسز کے درمیان تک تھی اس سطح پر لوگوں میں پیدا ہونے والا رجحان 24% ہے اور ان اساتذہ کی تعداد 6 ہے جبکہ ایف ۔اے، بی ۔اے، ایم ۔ اے کی سطح تک پیدا ہونے والا رجحان صرف 8% ہے اور ان اساتذہ کی تعداد صرف 2 ہے۔ ہم نے دیکھا کہ سب سے زیادہ رجحان اساتذہ میں بچپن ہی سے پیدا ہوا ہے ہمارے پہلی کلاس کے نصاب میں ’’اردو کی پہلی کتاب ‘‘اور پھر قومی زبان ’’اردو‘‘ ہے اس کے علاوہ والدین کا بچوں کو لوک داستانیں سنانا اور ان کا گھر یلو ماحول ہے جو بچپن سے ہی اردو کی طرف رجحان کو فروغ دیتا ہے۔
تیسرا سوال ہمارے سوالنامے کے مطابق تھا
’’آپ نے تقریباً کتنی کب پڑھ ڈالی ہیں ؟‘‘
اس سوال کے نتیجے میںہمیں جو جوابات حاصل ہو ئے ان کی روشنی میں ہم نے 4 کیٹیگریز بنائیں۔
پہلی چند یا یاد نہیں
دوسری سینکڑوں
تیسری ہزاروں
چوتھی لاتعداد
ایسے اساتذہ جنہوں نے چند کتب پڑھی ہیں یا ان کو یاد نہیں ہے ان کی تعداد 3 تھی 25 اساتذہ میں سے یہ تناسب 12% بنتا ہے اور سینکڑوں کی صورت میں جواب دینے والے اساتذہ کی تعداد 10 ہے ان کا تناسب 40% ہے اور ایسے اساتذہ جنہوں نے ہزاروں کی صورت تعداد میں کتب پڑھی ہیں ان کی تعداد 8 اور تناسب 32% ہے۔ لا تعداد کتب پڑھنے والے اساتذہ کی تعداد 4 اور تناسب 16% ہے۔ ان جوابات کی روشنی میں اہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اساتذہ اردو میں کتب بینی کار جحان پایا جاتا ہے ان میں یہ رجحان کچھ میں کم اور کچھ اساتذہ میں زیادہ پایا جاتا ہے زیادہ تر سیکڑوں کی تعداد میںکتب پڑھنے والے اساتذہ ہیں ہزاروں کی تعداد میںپڑھنے اساتذہ نسبتاً کم ہیں
ہمارا چوتھا سوال تھا آپ نظم یا نثر میںسے کس کو زیادہ پڑھتے ہیں؟
اس سوال کے جوابات کی روشنی میں ہمیں جو مواد حاصل ہوا ہم نے اسے تین حصوں میں تقسیم کیا تاکہ نتائج اخذکرنا آسان ہو۔
پہلے نمبر پر ہم نے ان اساتذہ کو رکھا جنہوں نے نثر کی صورت میں جواب دیا۔ دوسرے نمبر پر شاعری پڑھنے والے اساتذہ اور تیسرے نمبر پر شاعری اورنثر دونوں کی صورت میں جواب دینے والے اساتذہ ہمیں جو نتائج حاصل ہوئے ہیں ان کی روشنی میں 44% اساتذہ میں نثر پڑھنے کا رجحان ہے ان کی تعداد 25 میں سے 11ہے۔
شاعری پڑھنے والے اساتذہ کی تعداد صرف 4 تھی اور ان کا تناسب 16% رہا جبکہ ایسے اساتذہ جنہوں نے کسی ایک صنف کو بتانے کے بجائے دونوں کی صورت میں جواب دینے پر اکتفا کیا ان کی تعداد 10 تھی اور ان کا تناسب 40% بنتا ہے۔ ہمیں نتائج کی روشنی میں اس بات کا پتا چلتا ہے کہ اساتذہ اردو میں نظم یعنی شاعری کی بجائے نثر پڑھنے کا رجحان نسبتاً زیادہ ہے اس کے بعد جو اساتذہ دونوں اصناف کو ترجیح دیتے ہیں اس کی تعداد قابلِ شمار ہے اور سب سے کم تعداد میں شاعری یا نظم پڑھنے والے اساتذہ ہیں ۔
نظم اور نثر پڑھنے کے رجحان کے تسلسل کو برقرار کے لیے ہم نے ایک اور سوال اسی مناسبت سے کیا کہ آپ نے آخری کتاب کس صنف کی پڑھی ہے ؟ہمارے سوالنامہ میں یہ پانچویں نمبر پر درج ہے۔
اس سوال کا مقصد یہ تھا کہ جانا جاسکے کہ اساتذہ اردو میں عصرِ حاضر میں کس صنف کی طرف رجحان زیادہ ہے اس سوال کے جواب میں 84% اساتذہ نے نثر میں اورصرف 16% اساتذہ نے نظم یا شاعری میں جواب دیا شاعری میں کم رجحان اور نثر میں زیادہ ہونے کی وجوہات کا جائزہ لینے سے پتا چلتا ہے کہ ہمارے ہاں ایک طرح کے مضامین بار بار دہرانے جارہے ہیں اساتذہ کلاسیکی شاعری میں چند شعراء کے کلام کو بار بار دہراتے ہیں اگر اصناف کے اعتبار سے دیکھا جائے تو شاعری میں زیادہ تر غزل یانظم کی صورت میں مواد زیادہ ہے باقی اصناف میں نسبتاً کم ہے اور زیادہ تر اصناف نا پید ہوتی جارہی ہیں جبکہ دوسری طرف نثر میں تحقیق اور تنقید کے میدان کیطرف اساتذہ کارحجان زیادہ ہے اس کے بعد تاریخ اور پھر دیگر اصناف نثر (داستان ناول ، ڈرامہ ، افسانہ )کی طرف رجحان ہے ہمارے سوالنامے میںا گلا سوال تھا ۔
کیا آپ ایک قاری ہی ہیں یا پھر ادیب بھی ؟
یادرہے ادیب کی کیٹیگری میں ہم نے صرف صاحب کتاب اساتذہ کو رکھا ہے تنقیدی یا تحقیقی مقالہ لکھنے والے اساتذہ کو دوسری کیٹیگر ی میں رکھا ہے جسے میں نے سوالنمبر7 میں بیان کیا ہے اور بذریعہ سوال اساتذہ سے رائے لی ہے۔ اس سوال کے جوا ب میں 18 اساتذہ نے قاری ہونے کا اعتراف کیا یعنی 72% اساتذہ صرف قاری ہیں اور 7 اساتذہ نے قاری کے ساتھ ساتھ ادیب ہونے کا بھی دعوٰی کیایعنی 28% اساتذہ قاری ہونے کے ساتھ ادیب بھی ہیں۔
ادب کے استاد کے لیے قاری ہونا ضروری امر ہے اس کا مطالعہ وسیع اور عالمگیر ہونا چاہیے ادیب ہونا اس سے اگلا درجہ ہے قاری کے ساتھ ادیب ہونا بھی اس کی امیتازی صفت ہے ۔ ہمارے ادب کے اساتذہ میں قاری ہونے کا رجحان تسلی بخش جبکہ ادیب ہونے کا رجحان نسبتاً کم ہے۔
ہمارے سوالنامے میں میں اگلا سوال تھا ’’کیا آپ کا کوئی تنقیدی یا تحقیقی مقالہ / مضمون چھپا ہے ؟
اس سوال کے جواب میں 11 اساتذ ہ نے ہاں صورت میں جواب دیا یعنی 25 اساتذہ میں سے 44% اساتذہ مقالہ / مضمون نگار ہیں اور 14 اساتذہ نے ناں میںجواب دیا جن کا تناسب 56% بنتا ہے۔
اس سوال کے جواب میں حاصل ہونے والے نتائج کی روشنی میںہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ہمارے ہا ں تحقیقی تنقیدی کام کرنے والے اساتذہ کم ہیں جو کہ حوصلہ شکن بات ہے یہ رجحان زیادہ ہونا چاہیے تاکہ ادب کی جڑیں مضبوط ہو سکیں۔
دیے گئے سوالنامے میں ہمارا گلا سوال تھا ’’ اردو کے علاوہ کس زبان کے ادب میں دلچسپی رکھتے ہیں ؟
اس سوال کے جواب میں 11 اساتذہ نے انگریزی یعنی 44% تناسب انگریزی میں 15 اساتذہ نے فارسی یعنی 20% اساتذہ کارجحان فارسی میں اور 3 اساتذہ نے عربی تراجم یعنی 12% اساتذہ کارجحان عربی تراجم اور 2 اساتذہ یعنی 8%اساتذہ کا پنجابی میں رجحان ہے اور وہ اساتذہ جنہوں نے کہا کہ کسی اور زبان کے ادب میں دلچسپی نہیں ہے ان کی تعداد6 اور تناسب 24% ہے۔
ہم نے حاصل ہونے والے نتائج کو دیکھا اساتذہ کی اکثریت اردو کے علاوہ انگریزی ادب میں دلچسپی رکھتی ہے اس کی وجہ شاید یہ بھی ہے کہ انگریزی ایک بین الاقوامی زبان ہے اردو سے قدیم ہونے کے ساتھ ساتھ ذخیرہ ادب بھی وسیع ہے ہمارے ہاں اردومیں بہت ساری اصناف انگریزی ہی سے مستعار ہیںاور ہمارے ادیبو ں نے کچھ نظریات ہو بہو انگریزی ادب سے نقل کیے ہیں جو انگریزی کی طرف رجحان میں اضافے کی وجہ ہیں۔
فارسی اور عربی جو کہ اردو کی ماں سمجھی جاتی ہیں ان کو پڑھنے کارجحان ہمارے اساتذہ میںکم ہوگیا ہے فارسی میں یہ تناسب 20%جبکہ عربی میں صرف 12%ہے ہمارے ہاں مشرقی زبانوں سے دوری اور جدید علوم سے وابستگی نے عربی اورفارسی سے دوری کو جنم دیا ہے۔
ہمارے سوالنامے میں جو آخری سوال پوچھا گیا وہ تھا ادب اور مطالعے کے فروغ کے لیے آپ کیا تجاویز دیں گے؟
اس سوال کے جواب میں جو اساتذہ کی اکثریت نے جوابات دیے وہ یہ ہیں۔
۱۔ کتب کو سستا کیا جائے
۲۔ دیہاتوں میں لائبریریوں کا قیام عمل میں لایا جائے۔
۳۔ ادیبوں کی حوصلہ افزائی کی جائے۔
۴۔ ادیبوں کو تحقیقی مقالہ نگار اور تنقیدی مضمون نگاروں کے برابراہمیت دی جائے ۔ بلکہ ایک اچھی کتا ب کا معیار چند تنقیدی یا تحقیقی مضامین کے برابر متعین کیاجائے۔
۵۔ انٹرنیٹ پر کتب کے فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔
۶۔ والدین اور اساتذہ کتاب کلچر کو فروغ دیں۔
۷۔ کتابیں زیادہ سے زیادہ شائع کی جائیں ۔
۸۔ میڈیا کتاب کی اہمیت اور ادیب کے کردار کی افادیت کو اجاگر کرے۔
۹۔ موبائل دوستی کی بجائے کتاب دوستی کو فروغ دیا جائے۔
۱۰۔ کتاب میلوں کا انعقاد کیا جائے۔
۱۱۔ وہ کتابیں جو نایا ب ہو چکی ہیں ان کی اشاعت کا سلسلہ دوبارہ شروع کیاجائے۔
۱۲۔ تحفہ کتاب کی صورت میں دیا جائے۔
۱۳۔ اساتذہ کا معیار زندگی بلند کے لیے گورنمنٹ تنخوا ہوں میں اضافے کرے۔ تعلیمی اور ادبی استعداد کے مطابق وظائف مقرر کیے جائیں اور تر قی دی جائے۔
۱۴۔ ادبی مجالس کا قیام ، ادبی مباحث کی ترویج کو عام کیا جائے ۔
۱۵۔ کالجز میں اسمبلی اور بزم ادب پیر یڈ ، لائبریری پیریڈ کا آغاز کیا جائے۔
آخر میں ہم اس سوالنامے کے نتیجے میں حاصل ہونے والے نتائج کا جائزہ لینے کے بعد یہ بات بخوبی بیان کر سکتے ہیں کہ دور حاضر میں اساتذہ میں اردو زبان وادب کے مطالعے کا رجحان نثر کافی حد تک اطمینان بخش ہے لیکن شاعر کی طرف یہ رجحان نسبتاً کم نظر آتا ہے شاعری میں نظم کی نسبت غزل کو ترجیح دی جاتی ہے یہ دلوں کو زیادہ مرغوب کرتی ہے
کتابیات
i۔ ڈاکٹر ناصر عباس نیّرؔ تنقید اور لسانیات پورب اکیڈمی ۔اشاعت دوم 2014 ء
ii۔ رفاقت علی شاہدؔ مرتب تحقیق شناسی لاہور :القمر انٹر پرائز زلاہور۔ اشاعت ِاول 2010 ء