Uncategorized کالم

آنکھوں سے وہ اِک اشک ٹپکتا ہی نہیں ہے :یونس خیال

آنکھوں سے وہ اِک اشک ٹپکتاہی نہیں ہے
(فیصل زمان چشتی ایک سادھو)
اکیسویں صدی کی ابتداء کی اردوغزل میں نوجوان شعراکا لہجہ روایت سے تھوڑا مختلف دکھائی دیتاہے۔جہاں ان کے ہاںمحبت کےاظہاریے میں بدلاؤکی صورت سامنے آئی ہے وہاں غلامی سے شدید نفرت کا دوٹوک اندازبھی دیکھاجاسکتا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ میڈیانے دنیا میں ظلم اورناانصافی کے خلاف اُٹھنے والی تحریکوں کونہایت منظم طریقے نئی نسل تک پہنچایاہے۔ میڈیا کے اس حوالے سے مقاصدمختلف ہوسکتے ہیں اور ان پرتفصیل سے بات بھی ہوسکتی ہے لیکن ان سالوں میںنوجوان شاعروںکے ہاںکسی ابہام کے بغیراورکھل کراپنانکتہ نظرپیش کرنے کا شعورضروربیدارہواہے۔
ان میں چندایک نوجوان لکھاری شامل نہیں بلکہ ان کی ایک بڑی کھیپ سامنے آئی ہےجن کے نام اس مختصرسےکالم میں گنواناممکن نہیں۔یہاں فقط نوجوان فیصل زمان چشتی (جواب زیادہ نوجوان نہیں رہا) کاذکرکرنامقصود ہے جس کی شاعری نے سنجیدہ حلقوں کر اپنی طرف متوجہ کیاہے۔ فیصل زمان چشتی کاپہلا شعری مجموعہ ’’کربِ تنہائی ‘‘کے نام سے ۲۰۰۵ء میں سامنے آیا۔ٹھیک آٹھ سال بعد۲۰۱۳ء میں ’’گئے خواب کہاں ‘‘ اورپھراس کےنو سال بعد تیسرامجموعہ ’’ ہجرکوبخشی دھڑکن‘‘کےنام سے ۲۰۲۲ء میں چھپا۔ان بیس برسوں کی ریاضت نے اسے فنی اور فکری سطح پربہت مضبوط کیاہے اوراب اس کاشعرپہچان کے بڑے دائرے کی طرف بڑھتاہوادکھائی دیتاہے۔ظلم کے خلاف اُٹھتی آوازوں میں فیصل زمان چشتی کی للکارکااندازدیکھیے:
ظلم کو روکنا مقصد ہےتو پھر  یاد رہے
کوئی ظالم کبھی سردارنہ ہونے پائے
۔۔
ہم ختم کرائیں گے سبھی پُتلی تماشے
پردے  کو  گرانے میں  زرا  دیر  لگے گی
۔۔۔
ایوانِ اقتدار  سے   باہر  نکل   کے   دیکھ
پھرتی ہے کیسے گلیوں میں دیوانہ واربھوک
محبت کےاظہارکے حوالے سے ہمارے شاعر کا رویہ اس کے برعکس ہے۔یہاں اس کی آوازدھیمی ،نرم اور صاف ہے۔اتنی واضح جیسے دیکھنے میں بہتے شفاف پانی کی زیرِسطح پڑے مختلف رنگوں کےخوب صورت اورپُرسکون چھوٹے بڑے پتھر۔یہاں نہ پیش قدمی میں شدت ہے اور نہ پسپائی میں کسی مایوسی کی سی کیفیت اس لیے اسے محبت سے گریزیافرارنہیں کہاجاسکتا۔فیصل زمان محبت اورمحبوب دونوں کے درمیان کھڑا ایساسادھوہے جس کے ماتھے پرصرف’’رضا‘‘کالفظ لکھاہے۔شایدیہی وجہ ہے کہ اسے آنسووں سے خاص نسبت ہے:
اس نے پوچھاکہ محبت کی ہے نسبت کس سے
دل  نے  فورا  ہی   اشارے  سے  بتایا    آنسو
۔۔۔
اب محبت میں بھی توحید کی ہے ریت کہاں
کون   کرتا   ہے  یہاں   اتنی   قناعت   بابا
۔۔۔
اشک شبنم سے بھی ہوتے ہیں زیادہ نازک
دیکھنا  موئے پلک   خار   نہ   ہونے    پائے
۔۔۔
یہ کون مرے کانوں میں رس گھول رہاہے
لگتا ہے  وہی  جانِ غزل   بول   رہا   ہے
اس حوالے سےیہاں اس کا میں یہ شاندار،زندہ اورکیفیت سےبھرپورشعرضروردرج کروں گاجس نے مجھےنہ صرف بہت متاثرکیابلکہ ایک حدتک اس کالم کے لکھنے کا محرک بھی بنا:
جس کے لیے روتے ہوئے اک عمر بتادی
آنکھوں سے وہ اک اشک ٹپکتاہی نہیں ہے
ظلم کے خلاف آوازاٹھانے اور محبت کوسلیقے سےنبھانے والافیصل زمان چشتی سادھوضرورہےلیکن اتنا سادہ نہیں ہے۔ زندگی کے تلخ تجربات نےاسےزندہ رہنے کےگُراوردنیاداری کے طریقے سکھادیےہیں بلکہ اب تووہ اپنے دوستوں کوبھی اس ضمن مین مشورے دیتانظرآتاہے:
اپنے احباب کی فہرست زراپھرسے بنا
آزمائے ہوئے لوگوں پہ ہی تکیہ کیوں ہے
۔۔۔
نہ بھاگ تواِدھراُدھرکہ سانپ آستیں میں ہے
نہ روزجی، نہ روزمَرکہ سانپ آستیں میں ہے

حلقہ اربابِ ذوق ،لاہورکےحوالے سے بھی فیصل زمان چشتی کی خدمات کا دائرہ بہت وسیع ہے۔آنے والے ادبی دور میں ایسے ہی احباب شعری افق پرایک روشن ستارے کی طرح جگمگائیں گے۔

younus khayyal

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

کالم

ترقی یا پروموشن ۔۔۔۔ خوش قسمتی یا کچھ اور

  • جولائی 11, 2019
ترجمہ : حمیداللہ خٹک کون ہے جوزندگی میں ترقی نہ چاہتاہو؟ تقریباًہرفرد ترقی کی زینے پر چڑھنے کا خواب دیکھتا
کالم

کشمیرمیں انسانی حقوق کی پامالی

  • اگست 6, 2019
از : یوسف خالد کشمیر جل رہا ہے اور دنیا بے حسی کی تصویر بنی ہوئی ہے — دنیا کی