ماجد مشتاق صاحب ،شعبہ اُردو ،جی سی یونیورسٹی، فیصل آباد سے متعلق لائق اور محنتی استاد ہیں ،اپنے مضمون اور موضوع پر دسترس حاصل ہے ،اساتذہ کے ساتھ ساتھ اپنے اسکالرز میں یکساں مقبول ہیں ،جی سی یونیورسٹی لاہور میں ڈاکٹر سید معین الرحمٰن مرحوم کی صحبتوں اور التفاتِ فراواں سے فیض یاب ہونے کے مواقع ملے ،اسلوب اور مسدسِ حالی کے حوالے سے اُن کی کتب شایع ہو چکی ہیں ،انِ دنوں ایک ناول لکھنے میں مصروف ہیں ، ” اردو کے ادبی خانوادے ” کےموضوع پر پی ایچ- ڈی کا مقالہ قریب التکمیل ہے ،
ماجد مشتاق صاحب تعلیمی مسائل و معاملات کو خوب سمجھتے ہیں ۔اوّلین سطح پر بحیثیت متعلّم اور ایک ذمہ دار معلّم کی حیثیت سے اُنہیں نصاب میں موجود خامیوں،تدریسی اُمور کی کجیوں اور نظامِ امتحانات کی کج رویوں کا اِدراک ہے۔اس ذیل میں بالعموم گفتگو کرتے رہتے ہیں ، ” ہمارا تعلیم نظام: چند معروضات” کے زیرِعنوان اُن کا مختصر مگر جامع مضمون ماہنامہ” نالج پوایینٹ” فیصل آباد (مدیرِ اعلیٰ: رانا راشد علی خان ،بابت فروری ٢٠٢٠ ٕ) میں شایع ہُوا ہے۔مضمون کی اِبتدا اِن وقیع جُملوں سے ہوتا ہے:
” دنیا کی مہذّب اقوام ہمیشہ تعلیم اور صحت کو ترجیحی حیثیت دیتی ہیں،تعلیم اور تعلیمی نظام کسی بھی قوم کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے ۔ جدید دنیا میں تعلیمی نظام کسی بھی قوم کے مزاج،رویّے اور ترقی کا ضامن سمجھا جاتا ہے مگر بد قسمتی سے اس ملکِ خداداد کی کیفیت دنیا کی روش سے الگ ہے ” ( ص١٢)
ماجد صاحب گویا اقوام وملل کی ترقی میں تعلیم کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوۓ تعلیمی نظام اور اس کے متعلقات کی اصلاح اور بہتری کے خواہاں ہیں،وہ اس بات پر دکھ کا اظہار کرتے ہیں: ” نظریاتی قوم کہلانے کی دعویدار قوم جدید اور قدیم کی بحث میں پڑی ہو ٸی ہے "( ص١٢)،
ماجد مشتاق صاحب نےتعلیمی نظام کے ارکانِ خمسہ کی نشان دہی کی ہے :
١۔متعلّم،
٢۔معلّم،
٣۔نصاب،
٤۔تدریس،
٥۔سکول،
وہ مذکورہ پانچوں ستونوں کو گویا تعلیمی نظام کی طاقت سمجھتے ہوۓ ان کی کمزوریوں کو سامنے لاتے ہیں ،موصوف متعلم ک مرکزیت کے قایل ہیں اور اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں کہ اس کی ضروریات کو مدِّ نظر رکھتے ہوۓ نظام ترتیب دیا جاتا ہے مگر ہمارے ہاں اعدادو شمار کو کافی سمجھا گیا اور ہر دورہ میں لفظی ہیر پھیر کو اپنی کامیابی قرار دیا جاتا رہا۔۔۔ہمارا نظام نہ طلبا کی شخصی ضروریات کو پورا کرتا ہے اور نہ۔قومی ضروریات کو۔۔۔۔۔لہذا عدم برداشت،عدم رواداری جیسے مسایل کے عفریت اس قوم کا منہ چڑا رہے ہیں "(ص١٢)،
وہ نصاب سازی کے عمل کو قوم امنگوں اور مقاصد سے ہم آہنگ کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہیں۔
معلّم کو درپیش مسایل کا ذکر کرتے ہوۓ مضمون نویس نے تربیت کی کمی، معاشرتی عدم تحفظ،جدید ذرایع تدریس سے ناواقفیت جیسے مسایل کا ذکر کیا مگر” سب سے بڑا مسئلہ اساتذہ کا ذاتی رجحان ہے ،پاکستان میں اساتذہ (کی اکثریت) اپنی خواہش کے برعکس اس پیشے سے وابستہ ہیں جو کسی بھی طور اس پیشے کو اپنانے پر آمادہ نہ تھے لہذا اس بنیادی وجہ کو نظرانداز کرکے پیشہ تدریس میں بہتری لانا ناممکن ہے (ص١٢)،یہاں وہ طلبا کی ذہنی استعداد اور رجحان کو مد نظر رکھتے ہوۓ یورپی طرز پر اساتذہ کی تربیت پر زور دیتے ہیں ۔یہ تربیت یافتہ اساتذہ ہی ہیو ہیں جو معیاری تدریسی عمل کو فروغ دے سکتے ہیں ۔
تعلیمی نظام میں معاشرتی ماحول اور مدرسہ میں عدم مطابقت سے موصوف کی راۓ میں ” بچّہ نفسیاتی طور پر دہری شخصیت کا شکار ہو جاتا ہے۔۔۔جب مدرسے میں دی جانے والی تعلیم اور فراہم کی جانے والی تربیت سکول کی چاردیواری تک محدود رہ جاۓ گی تو ۔ایک مثالی شخصیت کا حصول دیوانگی یا دیوانے کا خواب سے زیادہ کچھ اہمیت نہیں رکھتا” سچاٸ کا بول بالا” کا درس لے کر گھر میں والدین کی خواہش پر دروازہ کھولتے ہی جھوٹ بولتا ہے، محنت کی عظمت پر غور کرتا ہوا معصوم ذہن ٹیلی ویژن پر خیراتی اداروں کے اشتہار دیکھتا ہے ،صبر،توکل اور شکر کے سنہری اصولوں کی افادیت پڑھ کر آنے والا دولت مند لوگوں کی کہانیاں استحسان سے سننے پر مجبور ہوتا ہے اور تو اور گھر،سکول اور معاشرے میں سچاٸ کے بدلے سزا پانے والا معصوم ذہن کس طرح جھوٹ کا عادی ہو جاتا ہےاس پر سوچا ہی نہیں جاتا "( ص١٣)،
اس مضمون میں ایک طرف تعلیم کی اہمیت کو زیب قرطاس کیا گیا ہے اور دوسری جانب اس میں موجود خامیوں کی نشان دہی کرتے ہوۓ اربابِ حل و عقد کی جانب سے مجرمانہ غفلت اور اغماض برتنے کی مذمت کی گیی ہے ۔ماجد مشتاق ایسی تعلیم کو عام کرنے پر زور دیتے ہیں جو نسلِ نو کو مختلف ہنر سکھاۓ ۔وہ اپنے اس موقف کی حقانیت و افادیت کو سامنے لاتے ہوۓ ایک مثال دیتے ہیں
” پچھلے دنوں فیصل آباد کی ایک مارکیٹ میں ایک ادھیڑ عمر کاریگر کو ایک معمولی دکان میں مشینیں بناتے دیکھا تو احساس ہوا کہ یہ شخص کتنے اپنے جیسے لوگوں کی عملی تربیت سے مستفید کر سکتا ہے ،اسے رجسٹرڈ کا سٹیٹس دے کر ہر سال دو سے تین بچوں کی تربیت پر مامور کیا جا سکتا ہے۔یہاں سے تربیت یافتہ لوگوں کے لیے ہنرمند افراد کے طور ڈپلومہ سرٹیفکیٹ جاری کیا جا سکتا ہے اور پھر یہی لوگ ہنر مند افرادی قوت کی صورت میں اندرون و بیرون ملک مفید شہری کے طور پر خدمات سر انجام دے سکیں گے۔[ ص١٣]
کس درجہ عمدہ اور قابلِ عمل تجویز ہے مگر مناسب منصوبہ بندی کے فقدان کی وجہ سے ہنر سے آراستہ نوجوانوں کے مقابلے میں غیر ہنر مند تعلیم یافتہ لوگوں کی تعداد ہی میں اضافہ نہیں ہو رہا بلکہ بے روزگاری بھی بڑھ رہی ہے ۔ مضمون نگارنے مضمون کی آخری سطور میں ان امور و معاملات پر سنجیدگی سے غور کرنے پر زور دیا ہے تاکہ تعلیم اور اس کی ضروریات کا درست سمت میں تعین ہو سکے:
١۔سادہ اور مفید نصاب،
٢۔ہنر مندی کی تربیت،
٣۔شعور کی فراہمی،
٤۔پُرجوش اساتذہ ،
ماجد مشتاق صاحب کا یہ مضمون اپنے قاری کو بہت کچھ سوچنے سمجھنے پر آمادہ و راغب کرتا ہے اور ظاہر ہے یہ مضمون نگار کی کامیابی ہے ،تعلیم کی اہمیت اورنئی نسل کو زیورِ تعلیم و تربیت سے آراستہ کرنے کے لیے ٹھوس عملی اقدامات زندہ اور مہذّب معاشروں کے اربابِ اختیار کی اولین ترجیح ہونی چاہیے ،
قرآن حکیم کی سورة فاطر میں یہ اہم نکات قابلِ غور ہیں:
وَمَا یَستَوِی الاَعمٰیٰ و البَصِیرُ * وَلَاالظُّلُمٰتُ وَلَاالنُّورُ*وَلَاالظِّلُّ وَلَاالحَرُورُ *وَمَا یَستوِی الاَحیَا ُٕ وَلَاالاَموَات *(آیات ١٩ تا ٢٢)
ترجمہ: اور برابر نہیں اندھا اور بینا ،اور نہ اندھیرا اور اُجالا ، اور نہ سایہ اور دُھوپ اور برابر نہیں زندے اور مُردے۔۔۔”
یہ جاننے اور نہ جاننے اور تعلیم یافتہ اور غیر تعلیم یافتہ کے درمیان حدِّ فاصل قائم کرتی ہوئی آیات ہیں، گویا منشاۓ ربّانی ہے۔