اپنے وطنِ عزیز سے محبت کرنے والے شاعر گل بخشالوی کی مادری زبان پشتو، روز مرہ کی پنجابی علمی ادبی اور قومی زبان اردو ہے گل بخشالوی کے نزدیک پاکستان میں بولی جانے والی سب زبانیں ایک گل دستہ کی مانند ہیں اور اردو اس گل دستہ کا گلِ سرسید ہے گل بخشالوی شعوری طور پر پاکستان کا حامی صوبائی ہم آہنگی اور قومی یک جہتی کے علم بردار ہیں ان کی شاعری میں حب الوطنی کے عناصر جا بجا ملتے ہیں انہوں نے کئی ملکوں کی سیر کی لیکن ہر جگہ ہر ملک میں اپنے وطن کی مٹی اور محبت کے اسیر رہے اپنے وطن کی مٹی ، نباتات،جمادات،فضائیں ہوائیں الغرض ہر چیز انہیں جان سے بھی زیادہ عزیز رکھتے ہیں اردو زبان سے ان کی محبت ان کی شاعری کے لفظ لفظ بلکہ حرف حرف سے عیاں ہے۔عظیم محب وطن،سابق انجینئر تربیلہ ڈیم سابق چیئر مین واپڈا سابق صدر غلام اسحاق خان انسٹی ٹیوٹ اور کالا با غ ڈیم کی تعمیر کے زبردست حامی شمس الملک کی پیروی میں گل بخشالوی بھی کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے موید اور حامی ہیں یہ ان کے جذبہ حب الوطنی کی معراج ہے
گل بخشالوی کی شاعری کا بالاستیعاب مطالعہ کرنے کے بعد قاری اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ وہ بنیادی طور پر ایک مزاحمتی اور انقلابی شاعر ہیں اشرفیہ اور اربابِ حکومت کی بے حسی، لوٹ کھسوٹ اور چھینا چھپٹی ان کی شاعری کا ایک اہم موضوع ہے ان کی شاعری نظامِ جبر کے خلاف کھلا جہاد ہے وہ اپنے قلمی جہاد کے ذریعے ہمہ وقت آزادیء اظہار اور جرا ء تِ اظہار کے لئے کوشاں رہتے ہیں۔
گل بخشالوی کی شاعری معاشرے کی عکاس ہے اس کے اندر کا انسان غریب کی غربت،افلاس بھوک اور فقرو ننگ کو دیکھ کر سلگتا رہتا ہے ان کی شا عری استحصالی طبقے کے خلاف صورِ ا سرافیل سے کم نہیں وہ حقیقت میں غریب کی آواز ہیں اپنے اہلِ وطن کے بنیادی مسائل کا انہیںبھر پور احساس ہے ان کی شاعری سے یہ سبق ملتا ہے کہ جبر اور ظلم وستم کے آگے خاموش رہنا بہت بڑا جرم ہے ایک ادیب اور شاعر کا فرضِ منصبی یہ ہے کہ اسے سفلی رویوں کے خلاف سینہ سپر رہنا چاہئے گل بخشالوی اپنی افتادِ طبع اور تربیت کے اعتبار سے دل وجان سے ایک سچے مسلمان ہیں راقم کے اس دعوے کا ثبوت بخشالوی کی وہ نعتیہ شاعری ہے جس میں سے عشق رسول اللہ مشامِ جاں معطر کرتا ہے وہ دینی اقدار کے امین اور قومی حمیت کے علم بردار ہیں اللہ تعالیٰ نے انہیں قلم کی طاقت بخشی ہے مگر انہوں نے اپنا قلم اور ضمیر بیچ کر قلم اور قلم قبیلے کو کھبی بھی رسوا نہیں کیا انہوں نے بحثیت ادیب شاعر اور صحافی یہ ثابت کیا ہے کہ وہ قلم کے حرمت کے پاسدار ہیںیہ ہی وجہ ہے کہ وہ ضمیر فروش ادیبوں اور صحافیوں کے کا لے کرتوت طشتِ از بام کرتے رہتیں
سیاستِ حاضرہ پر بخشالوی کی خاص نظر ہے انہوں نے اپنی حیاتِ مستعار میں پاکستان میں رونما ہونے والے کئی سیاسی انقلاب اور حکومتوں کے رد وبدل کو بڑے قریب سے دیکھا ہے کئی سیاسی تحریکوں کا حصہ رہے ہیں بندوق کی گولیاں کھائیں جھوٹے مقدمے جھیلے اور حوالات یاترا بھی کی ان کی عملی اور قلمی جدوجہد ابھی جاری ہے ناپسندیدہ سیاسی رویوں کے خلاف بھی ان کی تحریریں نشتر کا کام کر رہی ہیں وہ قومی نظامِ عدل سے مطنئن نہیں نام نہاد عدل کے ہاتھوں قتل ہونے والے زعماء کے غم میں دل گرفتہ ہیں عسا کرِ پاکستان کی قربانیوں جرائتوں اور کامیابیوں پر انہیں خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں آزادیِ کشمیر کے محاز پر ان کا قلم خاموش نہیں بلکہ کشمیر کے المیہ پر مسلسل خامہ فرسائی اور شہداء کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہیںاکابرِ پاکستان بالخصوص علامہ اقبال اور قائدا عظم محمد علی جناح کو اپنا آئیڈ یل بناتے ہوئے نئی نسل کو ان کے افکار کی روشنی میں منتقل کرتے ہیں علامہ اقبال کی شاعری کے والہ وشیدا ہیں
گل بخشالوی ہجرت کے کرب کی دبی چنگاریاں بھی ملتی ہیں ہجرت کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنا کہ حضرتِ انسان۔ ابن آد م کے علاو ہ اس کرہء ارض سے وابستہ پرندے،چوپائے، جانور، آبی مخلوقات،اور حشرات الارض بھی ہزاروں سالوں سے ہجرت کرتے چلے آئے ہیں مگر ان کی ہجرت میںجبلی ضرورتیں کار فرمارہی ہیں جہاں تک انسانی ہجرت کا تعلق ہے اس میں جبلی محرکات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ تاریخ،ِ انسانی میں ہجرت کے پیچھے اعلیٰ و ارفع مقاصد بھی رہے ہیںہجرتِ مدینہ تاریخِ عالم کا ایک انتہائی روشن باب ہے جس نے ہجرت کے لفظ اور مفہوم کو تقدس بخشا مگر اس ہجرت سے بھی ایثار، کرب، اور تکالیف وابسطہ ہیں گل بخشالوی کی شاعری میں ہجرت کی صدائے باز گشت سے اندازہ ہوتا ہے کہ کسی ہجرت کی وجہ سے ان کے زخم ابھی تازہ ہیں اس ہجرت کے کرب کی دبی چنگاریاں ان کی شاعری میں جا بجا سلگتی محسوس ہوتی ہیں اور وہ اس کے ذکر سے تہذیب ِ نفس کر تے رہتے ہیں!
گل بخشالوی کی غزل میں ہمیں تغزل کا بانکپن نظر آتا ہے گل کی غزل جہاں اپنے اندر سوز و گداز سموئے ہوئے ہے وہاں طنز کی گہری کاٹ بھی رکھتی ہے گل اپنی غزل میں جابجا امیرِ شہر کی چیرہ دستیوں،ضمیر فروشوں اور ہوس کوشیوں کو طشتِ از بام کرتے ہیں اور طنز کے تیر برساتے ہیں غزل تتلی کے پروں کی طرح نازک سی چیز ہے اور جب پختہ گو شاعر کے ہاتھ میں آتی ہے تو کہیں کہیں بے احتیاطی سے رنگ چھٹ جاتے ہیں گل بخشالوی حتی المقدور کوشش کرتے ہیں کہ وہ غزل کے فنی تقاضے پورے کریں۔
راقم السطور کو گل بخشالوی کی شاعری میں جو چیز نہال کرتی وہ جدوجہد کا سبق ، ہمت افزائی، اور جرات آموزی ہے ملکی انتشار، افراط و تفریط،بے حسی اور غیر انسانی رویوں کے خلاف کھلا جہاد ہے ۔
گل بخشالوی کے کلام سے انتخاب ملاحظہ فرمائیں
تذکرے اپنے صدائوں میں بھی اڑ سکتے ہیں ۔۔۔۔ ہم تو شاعر ہیں کتابوں میں بھی اڑ سکتے ہیں
اپنا سر رکھ کے ہتھیلی پہ چلو چلتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہم وطن ہم تو دھماکوں میں بھی اڑ سکتے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شریف ذات میں اپنی اسیر ہوتا ہے ۔۔۔۔جو بدقماش ہو گاوں میں پیر ہوتا ہے
کسی سے کیا کریں شکوہ کہ دورِ حاضرمیں ۔۔۔ہمارے دیس میں غنڈہ وزیر ہوتا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سر دیے ہزاروں نے خون سے نکھارا ہے ۔۔۔حسن ہے جہاں بھر کا عشق نے سنوارہ ہے
جو جہاں کا تارا ہے گل وطن ہمارا ہے ۔۔۔یہ وطن مدینے کا دوسرا کنارہ ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غازی علم الدین۔ ۲۵ ستمبر ۲۰۲۰
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نزہت جہاں ناز
اکتوبر 18, 2020ماشاء اللہ بہت خوب تبصرہ اور اشعار کا عمدہ انتخاب