” نقوش” کو اردو ادبی رسایل کی صفِ اوّل میں بھی جداگانہ اور معتبر مقام حاصل تھا۔اس کے عام شمارے بھی خاص شماروں کا درجہ رکھتے تھے۔١٩٤٨ ٕ میں لاہور سے ہاجرہ مسرور اور احمد ندیم قاسمی کی زیرِ اِدارت طلوع ہونے والا یہ رسالہ بہت جلد ایلِ قلم کی توجہ کا مرکز بن گیا،سیّد وقار عظیم نے بھی اس خاکے میں رنگ بھرنے کی مقدور بھر سعی کی۔ان کے بعد زمامِ اِدارت خود محمد طفیل (پ ١٩٢٣ ٕم ١٩٨٦ ٕ) نے سنبھال لی۔وہ ” نقوش ” کے مدیر ہی نہیں بانی اور مالک بھی تھے،سو انھوں نے اپنے ان خوابوں کو شرمندہ تعبیر کرنے کے مواقع ملے جو انھوں نے آغازِ کار کے وقت دیکھے ہوں گے۔گویا وہ خود ہی اپنے رسالے پر ریجھ گیے۔انھوں نے خاص اِشاعتوں اور نمبروں کے ذریعے ایک جہانِ ِنو آباد کر دکھایا ادبی صحافتی دنیا میں اس کی مثال پہلے موجود تھی اور نہ بعد میں کوٸ رسالہ اس کی تقلید کر پایا ۔ڈاکٹر رٶف پاریکھ نے درست لکھا ہے:
” Naqoosh is among Urdu`segregating those few literary magazine that began appearng after the independece and left thier nuqoosh,or marks on the history of Urdu literary journalism”( The "Dawn”, june 29,2015)
” نقوش” اور محمد طفیل گویا لازم و ملزوم ٹھہرے۔جبھی تو مولوی عبدالحق نے محمد طفیل کو محمد طفیل نقوش کا نام دیا،انھیں آج بھی اِسی نام سے یا کیا جاتا ہے۔محمد طفیل کے بعد ان کے لختِ جگر جاوید طفیل نے کیی دلکش رنگ اجاگر کیے۔” نقوش” ماہ بہ ماہ نہیں گاہ گاہ شایع ہوتا تھا اور جب شایع ہوتا تو مثلِ ماہتاب دنیا دیکھتی۔وہ جو کہتے ہیں کہ ہر کمالے راہ زوالے۔یوں ہوا کہ ” نقوش” کی اشاعتوں کا سلسلہ رک گیا ۔۔۔پھر جاوید طفیل بھی دنیا سے رخصت ہو گیے۔بس رہے نام اللہ کا۔
مدیر ” نقوش” محمد طفیل نے شمارہ نمبر ٧٧۔٧٨ ،١٩٥٩ ٕ کے لیے ایک سمپوزیم کا اہتمام کیا جس کا عنوان تھا:” کیا موجودہ ادب رُوبہ تنزل ہے !” اس میں افسانہ ،شاعری،تنقید اور طنزو مزاح کے حوالے سے نامور اہل ِقلم کو اظہارِ خیالات کی دعوت دی گیی۔افسانے پر قرة العین حیدر،کرشن چندر،عصمت چغتاٸ،خواجہ احمد عباسی،کشمیری لال ذاکر ،صالحہ عابد حسین،ابو سعید قریشی،عشرت رحمانی اور واجدہ تبسم نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔شاعری کے بارے میں جوش ملیح آبادی،فراق گورکھپوری،میکش اکبر آبادی،عبدالحمید عدم،مجید امجد،جگن ناتھ آزاد اور سلام مچھلی شہری نے باتیں کیں ،تنقید پر ڈاکٹر نذیر احمد،نیاز فتح پوری،عبدالماجد دریابادی،ڈاکٹر محی الدین زور،ڈاکٹر محمد احسن،ڈاکٹر احسن فاروقی،مظفر علی سید اور نصیرالدین ہاشمی جب کہ طنزومزاح کے حوالے سے شوکت تھانوی، کنہیا لال کپور اور فکر تونسوی کی وقیع آرا ٕشامل کی گییں،مشمولہ آرا ٕ صفحہ نمبر ٢٨٠ سے ٣٧٢ تک کو محیط ہیں ۔ہر راۓ بہت اہمیت کی حامل ہے ،ان کے مطالعہ سے آج سے کم و بیش ساٹھ سال پہلے کے ادب کے مزاج،رفتارِ کار اور عروج و زوال کو سمجھنے میں بہت کچھ مدد ملتی ہے۔
شاعری کے حوالے سے جوش،فراق،میکش،عدم،آزاداور سلام مچھلی شہری نے موضوع کی مخالفت میں دلایل دیے ۔یہ تمہید آپ تک مجید امجد (١٩١٤ ٕ تا ١٩٧٤ ٕ) کے افکار پہنچانے کے لیے باندھی گیی ہے،انھوں نے پہلے غزل پھر نظم پر اظہارِ خیال کیا ہے ان کی راۓ میں:
” غزل ہو کہ نظم دونوں اصناف یقیناً نیی وسعتوں اور گہراییوں سے روشناس ہوٸ ہیں۔میری نظر میں ان نیی وسعتوں کے اندر اب چند ایسے موڑ بھی آہستہ گیے ہیں جہاں سے گزرتے وقت ادیبوں اور شاعروں کو بڑی احتیاط کی ضرورت ہے”(ص٣٣٥)،
غزل کےبارے میں مجید امجد مطمین دکھاٸ دیتے ہیں کہ یہ صنف موضوع اور اسلوب کے لحاظ سے نیی منزلوں کی طرف بڑھی ہے۔یہاں انھوں نے بڑے اہم مسیلے کی نشان دہی کی ہے :
” بعض غزل گویوں کے ہاں ان دنوں تعمیرِ الفاظ کا رجحان پیدا ہو چلا ہے،ایسامعلوم ہوتا ہے کہ بعض لوگوں کے پاس کہنے کی کوٸ بات نہیں لیکن اچھوتی زمینوں کے ردیف و قوافی کے خمیر سے اور نوتراشیدہ تراکیب اور غیر مانوس الفاظ کے پردے میں وہ ایک طلسمِ اظہار بپا کر لیتے ہیں جو قاری کو ایک حیران کن دنیا میں لا کھڑا کردیتا ہے۔اس دنیا کے اندر ہرصنعت گری اور رنگینی ہوتی ہے لیکن جذبے کی دھڑکن نہیں ہوتی” ( ص٣٣٦۔٣٣٧)،
مجید امجد انسانی تجربے سے ابھرنے والے افکار کو ایوانِشعر کی خشتِ اوّلہو قرار دیتے ہیں۔اِس تناظر میں وہ اس امر کو اہمیت دیتے ہیں اور اسے قابلِ فخر بھی قرار دیتے ہیں:
” آج بھی اکثر غزل کہنے والے ایسی غزل کہہ رہے ہیں جس میں نہ صرف نیے نیے الفاظ اور اچھتی تراکیب ہیں بلکہ جس کے اندر مشاہدہ و تجربہ کی وہ نیی اقالیم بھی در آٸ ہیں جو اس سے قبل جہانِ غزل میں کم دیکھنے میں آ ٸ ہیں ” (ص٣٣٦)،
یعنی مجید امجد ،محمد طفیل کے استفسار کا دلایل کے ساتھ اِسترداد کرتے ہیں "کیاموجودہ ادب روبہ تنزل ہے” وہ نو تراشیدہ تراکیب اور غیر مانوس الفاظ (جنہیں وہ تعمیرِ الفاظ کا نام دیتے ہیں) سے ہٹ کر مجموٸ طور پر اطمینان کا اظہار کرتے ہیں۔
مجید امجد کی اوّلین شناخت بحیثیت نظم گو کے ہے سو اس ضمن میں ان کی راۓ بہت دلچسپ اور لایقِ توجہ ہے،پہلی بات انھوں نے نظم کی ہیت کی لچک کے بارے میں کی ہے جس میں اظہار کے اسلوب کے لیے قدم قدم پر ٹھوکر کا سامنا ہے ۔وہ نظم میں تکرارِ خیال کی بدعت سے بھی نالاں دکھاٸ دیتے ہیں:
” نظم کی ہیت کی لچک سے فایدہ اٹھانے کی بجاۓ بعض نظم گو نظم کی سطور کو مترادف جملوں کا جھمیلا بنانے لگ پڑتے ہیں جس سے نظم کے مجموعی تاثر میں کوٸ اضافہ نہیں ہوتا۔ان دقتوں کے باوجود بھی اس دوردی میں ایسی نظمیں اکثروبیشتر سامنے آٸ ہیں جن میں خیال و صورت ایک دوسرے میں گتھ متھ اور گھل مل گیے ہیں اور اگر یہ تجزیہ درست ہے تو کون کہہ سکتا ہے کہ گزشتہ دس بارہ سال کے اندر نظم نے قدم آگے نہیں بڑھایا! اب سوچنےکی بات یہ ہے کہ جب شعر کی مختلف اصناف نیی وسعتوں میں نیی منزلوں کی طرف گامزن ہیں تو پھر جمود کا نعرہ کیا حقیقت رکھتا ہے۔میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ جمود کا الزام ادب پر عاید نہیں ہوتا”( ص٣٣٦)،
یہاں مجید امجد ادب پر جمود کی نفی کرتے ہوۓ بہت اہم بات یہ کی:
” جمود تو صرف قاری پر طاری ہے،پڑھنے والے جامد ہو گیے ہیں،آزادی کے بعد ہمارے معاشرے پر جو حالات مسلط رہے ہیں ان میں صرف ایک چیز زندہ رہی ہے،” ہوسِ زر” لوگ زندہ رہے ہیں،چغتاٸ تصاویر سے جمالیاتی لذت حاصل کرنے کے لیے نہیں بلکہ خوبصورت کرنسی نوٹوں کی فراہمی کے لیے۔ایسے معاشرے کے اندر کسی نے مطٕون ہونا تھا،ادب اور فن ہی نے ہونا تھا ورنہ اگر کوٸ سچے دل سے غور کرے تو اسی دورہ کے اندر ملاقات(فیض احمد فیض) وادی نیل( یوسف ظفر)لیلےٰ( منیر نیازی) سمندر اور انسان( حمایت علی شاعر) اور اس قسم کی اور بیسیوں نظمیں نظروں کے سامنے آٸ ہیں جنھیں ادب کا کوٸ طالب علم نظرانداز نہیں کرسکتا”(ص٣٣٦) ،
غزل اور نظم کے حوالوں سے اپنے عہد کے حد درجہ بالغ نظر اور اہم شاعر کی یہ راۓ بہت وزن رکھتی ہے۔انھوں نے نیی لسانی تشکیلات والوں کا نام لیے بغیر تنقید کا نشانہ بنایا ہے،افتخار جالب اس ضمن میں پیش پیش تھے،اپنے مجموعہ کلام” ماخذ”( مکتبہ جدید ادب،لاہور) کے پیش لفظ میں انھوں نے اپنا مدعا کھل کر بیان کیا،وہ زبان میں” نیی راہیں کھولنا” چاہتے تھے،نیی آواز اور پرانی سرگوشیوں کے ربطِ باہمی سے جذبات کی لسانی حدود کو نیی وسعت سے ہمکنار کرنے کے خواہاں تھے۔ظفر اقبال کی ” گلافتاب ” نے اس تحریک میں شدت پیدا کر دی۔اِس تناظر میں مجید امجد کی معاصر شاعری کے بارے میں راۓ اس لیے بھی اہمیت کی حامل ہے کہ یہ مجید امجد کی راۓ ہے ،نہایت متوازن، بہت معتبر ۔مجید امجدکی اس راۓ کا بغور مطالعہ خود ان کے اشعارو افکار کو سمجھنے میں معاون ہو سکتا ہے ۔