ولیم ژونگ نے ۱۹۰۶ء میں Some Hindustani Proverbs کے عنوان سے ایک کتاب لکھی تھی ۔ اس میں انھوں نے ہندوستانی ضرب الامثال ؍کہاوتوں کا مطالعہ کیا اور ان کے سلسلے میں لکھا کہ لوگوں کے مشترک خیالات اور جذبات، ان کی کہاوتوں کے سوا کہیں واضح طور پر نہیں ملتے۔کہاوتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ لوگ کس بات کو د انائی کابلند درجہ دیتے ہیں۔فرانسس بیکن نے کہا تھاکہ کسی قوم کی فطانت،ذکاوت اور روح،اس کے ضرب الامثال میں ظاہر ہوتی ہے۔بعد کے تمام لوگوں نے (جن میں میکس مولر،ہندوستانی ضرب الامثال کی لغت کے مئولف ایس ڈبلیو فیلن وغیرہ شامل ہیں)اسی احسا س کے تحت ہندوستانی ضرب الامثال جمع کیے۔ژونگ لگی لپٹی رکھے بغیر کہتا ہے کہ ’’کوئی آدمی ہندوستان کو اچھی طرح جاننے کا دعویٰ نہیں کر سکتاجو اس [ملک] کے ضرب الامثال سے کچھ شناسائی نہیں رکھتا،جب کہ ہندوستانی مقولوں کا لائق طالب علم مقامی ذہن کی کارکردگی کو سمجھنے کے زیادہ قابل ہوگابہ مقابلہ ان بہت سے لوگوں کے جنھوں نے اپنی زندگی کلکتہ یا بمبئی میں دیسی قصص سے متاثر ہوئے بغیر گزاری ہے‘‘۔
یہ درست ہے کہ کہاوتیںقدیم دانش کا مختصر،رمزیہ ،جامع اور مقبول ِعام اظہار ہوتی ہیں۔دیکھنے والی بات یہ ہے کہ یہ دانش کہاں سے حاصل ہوتی ہے؟اکثر نے اس کا جواب اجتماعی اور روزمرہ تجربے میں تلاش کیا ہے۔اگر اجتماعی تجربہ ،کسی گروہِ انسانی کے جذبہ و خیال کی اس مجموعی کیفیت کا نام ہے جو کسی واقعے کا سامنا کرنے اور اس کے سلسلے میں ردّعمل کا اظہار کرنے کے دوران میں محسوس کی جاتی ہے،تو محض اجتماعی تجربہ کہاوت کا ماخذ قرار نہیں دیا جاسکتا۔کہاوت فقط کسی پرانے تجربے کا جوہر نہیں،ایک نئے تجربے کی تفہیم اور اس سے عہدہ برا ہونے کی سریع الاثر بصیرت بھی ہے۔کہاوت میں سب سے اہم عنصر،اس کا اکثر و بیشتر دہرایا جانا اور اس کا کسی ردّو کد کے بغیر قبول کیا جانا ہے۔یہی عنصر اسے اس قابل بناتا ہے کہ وہ اجتماعی تجربے اور انفرادی تجربے کو ایک نقطہء اتصال پر لے آئے۔اگر کوئی کہاوت حا ل کے نئے تجربے یاصورتِ حال کے سلسلے میں امر و نہی جیسی راہ نمائی فراہم کرنے سے قاصر ہو تو کہاوت یا لازوال دانش کی حامل نہیں کہی جا سکتی۔کہا جا سکتا ہے کہ کہاوت ،ذکاوت و فطانت پر مبنی مختصر رمزیہ قول نہیں،ایک ایسی لسانی تشکیل ہے جو حقیقت کی ترجمان نہیں؛حقیقت کی تشکیل کی صلاحیت کی علم بردار ہے۔اس صلاحیت کا مظاہرہ اس وقت ہوتا ہے جب کہاوت استعمال کی جاتی ہے اور سننے والااس کی روشنی میں اپنے تجربے یا صورتِ حال سے عہدہ برا ہونے کی ایک نئی راہ دریافت کرتا ہے جو دراصل ایک نئی حقیقت کی تشکیل ہوتی ہے۔
اکثر مستشرقین نے کہاوتوں کا مطالعہ ،انھیں حقیقت کی ترجمان سمجھ کر کیا ہے۔یہاں بھی اسی اصول کو پیشِ نظر رکھا گیا کہ لفظ ،دنیا کی ا شیا کی تمثیل ہے۔کہاوتوں میں ظاہر ہونے والی حقیقت بھی ایک ’شے‘ ہے،جسے تجربی طور پر گرفت میں لیا جاسکتا ہے۔مگر سوال یہ ہے کہ ثقافتی دنیا میں کوئی ’تجربی حقیقت‘ ہوتی ہے؟
ولیم ژونگ نے اپنے مقالے میں کئی فارسی،اردو اور ہندی کہاوتوں کو جمع کیا اور ان سے ہندوستان کی سماجی حقیقت’ دریافت‘ کرنے کی کوشش کی ہے۔ژونگ نے جن کہاوتوں کو پیش کیا ہے ،ان میں چند یہ ہیں: سفارشی کتا بہ از اسپِ تازی،حلوہ خوردن را روئے باید،اتم کھیتی مدھم بائونکشت چاکری بھیک ندائو،کیا چاکری ہو خالہ جی کا گھر،دھول پر دھول پھوٹے روٹی کی کور نہ ٹوٹے،کوڑی نہ پیسہ یہ بیاہ ہے کیسا،خوان بڑاخوان پوش بڑا کھول کے دیکھوتو آدھا بھرا،اونچی دکان پھیکا پکوان،نام بڑادرشن تھوڑا،گھر نہ چھاں نہ چھپراو رباہر میاں مظفر،رہے چھونپڑی میں اور خواب دیکھے محلوں کے،بڑے تو بڑے چھوٹے سبحان اللہ،چھوٹا منھ بڑا نوالہ،باپ نہ مارے مینڈکی بیٹا تیر انداز،خاک نہ دھول اور بی بی بیٹھی پھول،جتنا چادر دیکھے اتنے پیر پھیلائے،جے کی لاٹھی وے کی بھینس(جس کی لاٹھی اس کی بھینس)،حاکم مارے رونے نہ دے،لکڑی کی ڈر باندری ناچے،سانپ مرے لاٹھی نہ ٹوٹے۔ان میں سے بعض کے انگریزی ترجمے مضحکہ خیز ہیں(جن کا تذکرہ آگے ہوگا)۔ان سے ژونگ نے جس سماجی حقیقت کو ’دریافت‘ کیا ہے،وہ یہ ہے:
مشرقی ذہن ہمیشہ اس فرق میں مسرور ہوتا ہے جوحقیقی پست گردوپیش اور تخیلی ماحول کے لامحدود شکوہ میں ہے۔
یہ ایک جملہ حقیقتاً وہ مکمل ڈسکورس ہے جسے ہندوستانی ضرب الامثال کے مطالعے کی مدد سے تشکیل دیا جاتا ہے۔ہندوستان کے چند علاقوں(یوپی خاص طور پر) میں رائج کہاوتوں سے ’مشرقی ذہن‘کی دریافت ،عمومیت کا مقولہ وضع کرنے کی ایک صورت ہے ۔نو آبادیاتی مطالعات میں محدود علاقائی،ثقافتی،لسانی وضعوں کو عمومی صورت دینے کی مسلسل کوشش ہوتی ہے۔ایک ’حقیقی ‘مثال کا اطلاق اس ’سب‘ پرہوتا ہے جو اصلاً تخیلی ہوتا ہے۔یہ اور بات ہے کہ اس ’تخیلی کنسٹرکٹ‘ سے وہ اثر پیدا کیا جاتا ہے جو حقیقی مثال سے ممکن نہیں ہوتا۔’مشرقی ذہن‘ ایک ایسی ہی عمومیت کا حامل اور ’تخیلی تشکیل‘ ہے ۔اسی طرح’ ہمیشہ ‘کا لفظ بھی اسی عمومیت اور تخیلی تشکیل کو ایک مستقل اور ’ابدی‘ زمرہ بنانے کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔ اسی ڈسکورس کے سلسلے میں اگلی بات یہ ہے کہ ولیم ژونگ نے فارسی، اردو اور ہندی میں سے کون سے ضرب الامثال منتخب کیے اور ان سے مذکورہ سماجی حقیقت ’دریافت‘ کی ہے؟دیسی ذہن تک رسائی کی خاطر کچھ کہاوتوں کے انتخاب کا لازمی مطلب یہ ہے کہ بہت سی کہاوتیں مسترد بھی کی گئی ہیں۔ہرانتخاب کے سلسلے میں دو باتیں تو سامنے کی ہیں:ہر انتخاب ،ردّو قبول کے عمل سے گزرتا ہے اور یہ عمل کسی نہ کسی منطق؍ضرورت؍پیمانے کی بنیاد پر ہوتا ہے؛دوسری بات یہ کہ انتخاب کے ذریعے ’کینن سازی‘ کی کوشش کی جاتی ہے۔ژونگ نے جن کہاوتوں کی بنیاد پر ’مشرقی ذہن ‘ کے سلسلے میں ایک عمومی اور ابدی نوعیت کا نتیجہ اخذ کیا ہے ،ان میںچندیہ ہیں: کوڑی نہ پیسہ یہ بیاہ ہے کیسا،اونچی دکان پھیکا پکوان،گھر نہ چھاںنہ چھپرباہر میان مظفر اور رہے چھونپڑی میں اور خواب دیکھے محلوں کے۔وہ تمام کہاوتیں جو ان سے مختلف مفہوم کی حامل ہیں،انھیں اتخاب میں شامل نہیں کیا گیا۔ژونگ کی منتخبہ کہاوتیںہندوستان کے اس طبقے میں وضع ہوئیں جو سماجی اور معاشی اعتبار سے محروم اور پس ماندہ ہے۔ان سے متبادر ہونے والے معانی کو پورے ہندوستانی سماج کی اجتماعی دانش قرار دیناایک ایسی علمی جسارت ہے جو سیاسی طاقت کے نشے سے مخمور ذہن یا اپنے علمی طریق ِ کار کی خود ساختہ عظمت سے سرشار شخص ہی کر سکتا ہے۔حالاں کہ یہ ایک عام مشاہدے کی بات تھی کہ برصغیر تکثیری اور طبقاتی سماج تھا۔چہ جاے کہ اسے مشرقی ذہن کی خصوصیت کہنا جس میں جغرافیائی اعتبار سے عرب،ایران،وسط ایشیا،افغانستان ،چین جاپان اور آئیڈیالوجی کے لحاظ سے افریقہ اور یورپ کے مسلمان ممالک شامل ہیں۔چناں چہ صاف محسوس ہوتا ہے کہ ایک طبقے کی کہاوتوں کو مشرقی ذہن کی تخیلی تشکیل کے لیے کینن بنایا گیا۔آگے یہ بات مزید ثابت ہوتی ہے۔
دیکھنے والی بات یہ بھی ہے کہ حقیقی پست اور پر شکوہ تخیلی ماحول میں لطف اندوزی کی صلاحیت فقط ’مشرقی‘ ذہن کی خصوصیت ہے؟اصل یہ ہے کہ یہ کسی ایک سماج کی خصوصیت کی بجائے بنیادی انسانی صلاحیت ہے اور ایک عجوبہ صلاحیت ہے۔اوّل یہ دیکھیے کہ تخیلی ماحول کا لامحدود شکوہ ،اس امر کااعلان ہے کہ حقیقی پست ماحول سے انسان نباہ نہیںکرسکتا۔وہ ایک دوسری ،مختلف اور متبادل دنیا کو تخیلی اور حقیقی طور پر وجود میں لانے کی استعدادرکھتا ہے ۔انسانی ثقافتی تاریخ کے حوالے سے تعجب خیز امر یہ ہے کہ متبادل دنیاکا تصور فقط پست گردو پیش سے نجات پانے کی خاطر نہیں کیا جاتا،نئے پن کی لازوال تڑپ اسے کسی پل چین نہیں لینے دیتی۔بہ ہر کیف مذکورہ صلاحیت کا سب سے قوی اظہار آرٹ کی تخلیق میں ہوتا ہے۔آرٹ اپنی قدیم اور اصلی صورت میں ایک پر شکوہ تخیلی حظ ہے۔یہ درست ہے کہ بعض صورتوں میں یہ صلاحیت ،محض خالی ہئیتی صورت اختیار کر سکتی ہے اور ایسی کہانیاں جنم دے سکتی ہے جو متبادل دنیا کے تخلیقی تصور کے بجائے،ایک خالی خیالی دنیا کا خاکہ پیش کرتی ہوں،مگر اوّل ایسا انفرادی صورت میں ہوتا ہے،دوم خالی خیال دنیاایک تفریحی چیز ہوتی ہے۔ اجتماعی دانش غلطی پرنہیں ہوتی،ہاں اجتماعی ذہنیت سے خطا کا امکان رہتا ہے۔
ایک اور اہم بات یہ ہے کہ ضرب الامثال کی اس بنیادی خصوصیت کو نظر انداز کیا گیا جس کے مطابق:وہ ایک ایسی لسانی تشکیل ہے جو حقیقت کی ترجمان نہیں؛حقیقت کی تشکیل کی صلاحیت کی علم بردار ہے۔بلاشبہ ان کہاوتوں میں فرق اور تقابل موجود ہے ،مگر یہ حقیقی سماجی صورتِ حال اور تخیلی ماحول کا نہیں ،یہ فرق لسانی ہے۔کہاوت کے دانش آموز ہونے سے کوئی انکار نہیں کرتا۔یہ دانش ’باہر‘ نہیں، کہاوت کی لسانی وضع کے ’اندر‘ ہے۔’باہر‘ بدلتا رہتا ہے مگر لسانی وضع قائم و برقرا ر رہتی ہے ،اس لیے کہ اکثر کہاوتیں فعل کے بغیر ہوتی ہیں؛فعل کسی جملے کے معنی کو کل ،آج اور آنے والے کل سے وابستہ کرتا ہے،جب کہ فعل کی غیر موجودگی جملے میں لازمانیت کا عنصر پیدا کرتی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ’باہر‘ کی صورتِ حال کے تبدیل ہونے کے باوجود کہاوت اثر انگیز رہتی ہے۔کہاوت میں لسانی فرق ہے اور جن لفظوں کے سہارے یہ فرق موجود ہے وہ لغوی نہیں استعاراتی مفہوم رکھتے ہیں۔اپنی اسی خصوصیت کی وجہ سے تمام کہاوتیں نہ صرف اپنے لسانی اور سماجی گروہ کو عبور کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں بلکہ اپنی اس زمانی حد اور مخصوص حالت کو بھی جن میں یہ وضع ہوئیں ۔جھونپڑی اور محل سے مراد واقعی غریب اور امیر کے گھر نہیں ،یہ اسم مکاں ہیں؛ایسے اسماے معرفہ ہیں جن میں نکرہ بننے ہی کی نہیں،استعارہ بننے کی بھی غیر معمولی صلاحیت۔نیز یہ کسی سماجی حقیقت کی ترجمان نہیں بلکہ ایک خاص صورتِ حال(جو سماجی،معاشی،نفسیاتی، معاشی ہو سکتی ہے) سے عہدہ برا ہونے کی راہ سجھاتے ہیں۔سادہ لفظوںمیں’جھونپڑی میں رہ کر محلوں کے خواب دیکھنے ُ‘کی کہاوت ہندوستانیوں کے مزاج کی ترجمان نہیں،بلکہ اس مزاج پر ایک طنز کا درجہ رکھتی ہے جو اپنی حقیقی صورتِ حال کا سامنا کرنے کی بجائے،تخیلی دنیا میں رہنے سے عبارت ہے۔تاہم واضح رہے کہ یہ طنز کہاوت کے لہجے میں ہے۔چوں کہ لہجہ ،تحریر میں نہیں تقریرمیں آتا ہے، اس لیے کہاوت کے مفاہیم اکثر اس کو استعمال کرنے کے دوران میں سامنے آتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ کہاوتیں،زبانی ثقافتوں ہی میں پیدا ہوتی اور وہیں اپنے حقیقی معانی کے ساتھ زندہ رہتی ہیں۔
کہاوت کی تفہیم میں اگر لفظوں کے لغوی مطالب ہی سامنے رکھے جائیںتوکئی گم راہیاں جنم لیتی ہیں۔
ژونگ نے ان کا مطالعہ’باہر‘ سے کیا ۔چناں چہ وہ جگہ جگہ کہاوتوں کی ’سماجی حقیقت‘ کا اطلاق ہندوستانیوں پر کرتا ہے تا کہ اس حقیقت کو تجربی ثابت کیا جا سکے۔مثلاًچھوٹامنھ بڑا نوالامیںوہ ہندوستانی اہل کاروں کی طمع ’دریافت‘کرتے ہیں۔اپنی بات کی تائید میںکہتے ہیں کہ یہ طمع کس قدر سیری ناپذیر اور عام ہے کہ اسے صرف وہی جانتے ہیں جو ہندوستان میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔چند ہی دیسی اہل کار رشوت سے انکار کرتے ہیںاور بہت کم لوگ ایسے ہیں جوبے بس مجبور لوگوں سے سب کچھ جھپٹ لینے سے گریز کرتے ہوں۔اس پر اپنی رائے دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’ مشکل یہ ہے کہ اس ملک[ہندوستان]کا رواج مجرموں کے ساتھ دیتا ہے‘‘ ۔اسی طرح مشہور کہاوتوں :جس کی لاٹھی اس کی بھینس ،زبردست کا ٹھینگاسر پراور حاکم مارے رونے نہ دے،میں یہ سبق ’دریافت‘ کرتے ہیں کہ صاحب اقتدار آدمی سے لڑنا عبث ہے،خصوصاً آئینی اتھارٹی سے ؛ذلت لوگوں کی اکثریت،خاص طور پر غریبوںکے ’شایانِ شان ‘ہے؛جنگ صرف طاقت ور کے لیے ہے اور یہ کہ اسلحہ سے لیس طاقت ور آدمی ہی محفوظ ہے،باقی سب کے لیے اطاعت گزاری ہے۔مزید ضرب الامثال میں وہ ہندوستانیوں کے عورتوں اور جانوروں کے لیے ظالم ہونے کامفہوم برآمد کرتے ہیں۔اسی ضمن میں ہندوستانیوں کو مخاطب ہو کر کہتے ہیں کہ جب بے بس مخلوق کے ساتھ ان کا سلوک ظالمانہ ہے تو وہ انگریز سرکار میں اعلیٰ اور معزز عہدوں کی آرزو کس بنیاد پر کرتے ہیں۔
ولیم ژونگ کا ہندوستانی کہاوتوں کا یہ مطالعہ ہندوستانیوں اور مشرقیوں (جنھیں وہ مترادف کے طور پر استعمال کرتے ہیں)ایک ڈسکورس ہے۔اس ڈسکورس کی پہلی خصوصیت مماثلت ہے، جسے کہاوت اورسماجی صورتِ حال میں فرض یا ’دریافت‘ کیا جاتا ہے۔اگر مماثلت واقعی موجود ہے تو دیکھنے والی بات یہ ہے کہ اس کی ’دریافت‘ کا آغاز کہاں سے ہوتا ہے؟کہاوت سے یا ’باہر‘ سے؟مگر ہم دیکھتے ہیں کہ مماثلت ’دریافت‘ نہیں کی گئی،کہاوت اور سماجی زندگی کے درمیان ’پیدا‘ کی گئی ہے۔اس کے لیے دو طرح کی مطالعاتی تدبیریں اختیار کی گئی ہیں:ایک تو منتخب کہاوتوں کا انتخاب کیا گیا ہے اور دوم ان کی وضاحت کی بجائے،ان کی تعبیر کی گئی ہے۔تعبیر کے لیے ’باہر‘ کی نو آبادیاتی صورتِ حال کا تناظر ملحوط رکھا گیا ہے۔مثلاً یہ تناظر ’برطانوی آئینی اتھارٹی‘کو ایک ایسی طاقت کا حامل قرار دیتا ہے جس کے خلاف لڑا جانا حماقت ہے۔یہ آئینی اتھارٹی لاٹھی ہے اور تمام ہندوستانی بھینسیں ہیں،لہٰذا ہندوستانی دانشِ قدیم کے تحت یہ بھینسیں اسی کی ہیں جس کے پاس لاٹھی ہے۔
ژونگ آخر میں سوال اٹھاتا ہے کہ کیا دیسی باشندے ہمارے ماتحت مطمئن ہیں؟خود ہی ہندوستانیوں کی طرف سے جواب دیتا ہے(اس بات کا استعماری حاکم پیدایشی حق رکھتا ہے) کہ وہ ہمارے قوانین کے جائز اور غیر جانب دار ہونے کی وجہ سے خوش ہیں۔دس میں سے نو مسلمان ہندو ججوں کی غیر جانب
داری میں یقین نہیں رکھتے،اور یہی صورت ہندوئوں کی ہے مگر کیا ہندو اور کیا مسلمان سب انگریزوں کا احترام کرنے میں یقین رکھتے ہیں۔سوائے چند بنگالیوں کے ،جوبزدل ہیں۔وہ یہ بھی سوال اٹھاتاہے کہ ہندوستانی ہم سے چاہتے کیا ہیں؟ یہاں اس نے ہندوستانیوں کا نقشہ کھینچا ہے ۔جب کسی ہندو سے یہ سوال کیا جائے تو وہ ہاتھ جوڑ کر سر جھکا کر پرنام کرتے ہوئے کہے گا:غریبوں کے محافظ،آپ میرے مائی باپ ہیں۔آپ جو فرماتے ہیں سچ ہے۔تاہم انکم ٹیکس بری چیز ہے۔عزت مآب جانتے ہیں کہ ہم زمین،لائسنس اور چونگی کی مد میں چھیاسٹھ فی صد دیتے ہیں۔اگر آپ ہمیں پولیس سے بچا سکیں تو آپ ہمارے لیے وشنو کے اوتار ہوں گے۔مائی لارڈ ،راج برطانیہ چودہ سوکوس طویل ہے،مگر ہمیں لڑکیوں کا سکول نہیں چاہیے کیوں کہ عورتیں جتنی کم پڑھی لکھی ہوں اتنا ہی فساد کم ہوگا۔برطانیہ نے ریلوے بنایااور ٹیلی گراف دیا ہے،اور وہ ہمارے دیوتا ہیں،اور آپ ہمارے مائی باپ ہیں۔ہندوستانیوں کی یہی وہ تصویر ہے جسے یورپی تعقل،مشرق کے لوک اور تحریری ادب کے مطالعے کی مدد سے تیار کرتاہے؛اسے اشاعت کے جدید ذرائع کی مدد سے پھیلاتا ہے اور پھر ہندوستانیوں کو اس کے مطابق ڈھلنے پر مائل کرتا ہے۔اپنے ہی ادب سے اخذ کردہ شناخت کو قبول نہ کرنے میں انھیں کوئی معقولیت نظر نہیں آتی!!