تنقید

کلامِ غالبؔ میں طنز و مزاح کا عُنصر


        از: مظفرحنفی
مولانا حالیؔ نے اپنے نام وَر استاد مرزا اسد اللہ خاں غالبؔ کو حیوانِ ظریف کچھ غلط نہیں کہا۔ سرسری مطالعے کے بعد ہی پڑھنے والے کو اندازہ ہو جاتا ہے کہ خطوطِ غالبؔ ہوں یا کلامِ غالبؔ، نثر و شعر کے دونوں میدانوں میں غالبؔ نے طنز و مزاح کے اسلوب سے خوب خوب کام لیا ہے اور قدم قدم پر شگفتگی کے پھول کھِلائے ہیں۔ در اصل غالبؔ کے مزاج میں شوخی کا جو عنصر بطورِ خمیر قادرِ مطلق نے شامل کیا تھا، مرزا نے اسے اپنی تخلیقات میں اس خوبی سے منتقل کیا ہے کہ ان میں برجستگی، لطافت اور طرزِ ادا کی ندرت اُبھر آئی ہے۔ یوں تو ادبی حلقوں میں سب سے زیادہ لطیفے، انشاؔ اور مجازؔ سے منسوب کیے جاتے ہیں لیکن میرؔ و اقبالؔ جیسے عظیم شعرا کی صف میں غالبؔ اس اعتبار سے منفرد ہیں کہ بذلہ سنجی اور لطیفہ بازی کی بہت سی روایات موصوف سے وابستہ کی جاتی ہیں جو اس امر کی غمّازی کرتی ہیں کہ غالبؔ کی فطرت میں شوخی کوٹ کوٹ کر بھری ہے۔
کلامِ غالبؔ میں مسائلِ تصوف، فلسفیانہ تصوّرات اور تجسس و تحیر کی فضا نے ناقدین کو اپنی طرف اس طرح متوجہ رکھا اور شارحینِ کلامِ غالبؔ اشعار کی پہلو داری اور علاماتی پرتوں میں اتنے الجھے رہے کہ شعروں کی زیریں سطح اور بالائی پرت پر موجود شوخی کا عنصر خاطر خواہ توجہ کا مرکز نہیں بن سکا ورنہ حقیقت یہ ہے کہ متداول دیوانِ غالبؔ کا پہلا شعر بلکہ پہلا مصرع ہی شوخیِ تحریر کا حامل ہے :
نقش فریادی ہے کس کی شوخیِ تحریر کا
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر کا
یہاں ، شوخیِ تحریر سے میری مراد اس لفظی ترکیب سے نہیں ہے جو شعر میں برتی گئی ہے بلکہ اس شوخ لب و لہجہ سے ہے جو غالبؔ نے نقاشِ ازل کے تخلیقی عمل پر تبصرے کے لیے استعمال کیا ہے۔ آج سے تقریباً ایک سو پچاس برس پیش تر، جب معاشرہ، مذہب سے اس حد تک بیگانہ نہ ہوا تھا، جتنا کہ آج ہے، غالبؔ خداے برتر سے مخاطبت کے دوران اکثر ایسا ہی شوخ و شنگ لہجہ اور انداز اختیار کرتے ہیں۔ چند بولتی ہوئی مثالیں ملاحظہ ہوں :
بندگی میں بھی وہ آزادہ و خود بیں ہیں کہ ہم
اُلٹے پھر آئے، درِ کعبہ اگر وا نہ ہوا
پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھے پر ناحق
آدمی کوئی ہمارا دمِ تحریر بھی تھا
آتا ہے داغِ حسرتِ دل کا شمار یاد
مجھ سے مرے گنہ کا حساب اے خدا نہ مانگ
میری قسمت میں غم گر اتنا تھا
دل بھی یا رب کئی دیے ہوتے
شوخی کا یہ انداز کہ درِ کعبہ وا نہ ہو تو حضرتِ غالبؔ اُلٹے پھِر آتے ہیں، فرشتوں کے لکھے پر بے اعتمادی کہ اس وقت ہمارا کوئی آدمی موجود نہ تھا، گناہ کا حساب دینے پر اس اعتراض کے ساتھ عذر خواہی کہ اس طرح خدا کے ودیعت کردہ داغِ حسرت دل یاد آ جاتے ہیں اور پھر یہ مطالبہ کہ تقدیر میں اتنے غم لکھے تھے تو دل بھی بہت سے عطا کرنے تھے، کچھ غالبؔ ہی پر پھبتا ہے کیوںکہ ایسے نازک مقامات پر عام فن کاروں کا تو دم پھول جاتا ہے۔
قدیم عقائد اور مذہبی روایات کے سلسلے میں اظہارِ خبال کرتے ہوئے بھی غالبؔ کا لہجہ اکثر بے باک اور شوخ ہو جاتا ہے یوں تو عام طور پر زاہد کی ریاکاری اور شیخ کی نمائشی پارسائی پر فارسی و اُردو کے غزل گو طعن و تشنیع کرتے ہی رہتے ہیں لیکن غالبؔ اس راہ پر بہت آگے بڑھ کر اپنی شوخی اور ظریفانہ اندازِ گفتگو کے وسیلے سے قدیم عقائد پر وار کرتے نظر آتے ہیں۔ ذرا ان اشعار کے تیور دیکھیے:
بھوں پاس آنکھ قبلۂ حاجات چاہیے
مسجد کے زیرِ سایہ خرابات چاہیے
ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت، لیکن
دل کے خوش رکھنے کو غالبؔ یہ خیال اچھا ہے
وہ چیز جس کے لیے ہو ہمیں بہشت عزیز
سواے بادۂ گل فام و مشک بو کیا ہے
کہاں میخانے کا دروازہ غالبؔ اور کہاں واعظ
پر اتنا جانتے ہیں، کل وہ جاتا تھا کہ ہم نکلے
گو واں نہیں پہ واں کے نکالے ہوئے تو ہیں
کعبے سے ان بتوں کو بھی نسبت ہے دُور کی
واعظ نہ تم پیو نہ کسی کو پلا سکو
کیا بات ہے تمھاری شرابِ طہور کی
کل کے لیے کر آج نہ خسّت شراب میں
یہ سوے ظن ہے ساقیِ کوثر کے باب میں
اور مذہبی امور میں شوخی کا یہ عنصر محض غزلوں تک محدود نہیں ہے، قطعہ و رباعی بھی اس کی زد میں ہیں :
افطارِ صوم کی کچھ اگر دست گاہ ہو
اس شخص کو ضرور ہے روزہ رکھا کرے
جس پاس روزہ کھول کے کھانے کو کچھ نہیں
روزہ اگر نہ کھائے تو ناچار کیا کرے
اہلِ نظر بخوبی اندازہ کر سکتے ہیں کہ جو غالبؔ مذہب اور محبوب حقیقی کے ساتھ ایسا کھُلا شوخی آمیز رویّہ اختیار کرتے ہیں وہ معشوق مجازی کے بارے میں ویسی مؤدّبانہ خود سپردگی اختیار کرنے سے رہے جہاں غبارِ میرؔاُس سے دُور بیٹھتا ہے، چناںچہ ارضی محبوب کے ساتھ غالبؔ کی چہلیں ملاحظہ ہوں :
عاشق ہوں پہ معشوق فریبی ہے مرا کام
مجنوں کو بُرا کہتی ہے لیلیٰ مرے آگے
لاغر اتنا ہوں کہ گر تو بزم میں جا دے مجھے
میرا ذمّہ، دیکھ کر گر کوئی بتلا دے مجھے
وعدہ آنے کا وفا کیجے یہ کیا انداز ہے
تم نے کیوں سونپی ہے میرے گھر کی دربانی مجھے
اسدؔ خوشی سے مرے ہاتھ پاؤں پھول گئے
کہا جواس نے، ذرا مرے پاؤں داب تو دے
پھر کھُلا ہے درِ عدالت ناز
گرم بازارِ فوج داری ہے
سیکھے ہیں مہ رُخوں کے لیے ہم مصوّری
تقریب کچھ تو بہرِ ملاقات چاہیے
رات کے وقت مَے پیے ساتھ رقیب کو لیے
آئے وہ یاں خدا کرے پر نہ خدا کرے کہ یوں
دھول دھپّہ اس سراپا ناز کا شیوہ نہیں
ہم ہی کر بیٹھے تھے غالبؔ پیش دستی ایک دن
تم شہر میں ہو تو ہمیں کیا غم، کہ اُٹھیں گے
لے آئیں گے بازار سے جا کر دل و جاں اور
بہرا ہوں میں تو چاہیے دُونا ہو اِلتفات
سُنتا نہیں ہوں بات مکرّر کہے بغیر
کتنے شیریں ہیں اُس کے لب کہ رقیب
گالیاں کھا کے بے مزا نہ ہوا
لے تو لوں سوتے میں اس کے پاؤں کا بوسہ مگر
ایسی باتوں سے وہ ظالم بدگماں ہو جائے گا
ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ تُو کیا ہے
تمھی کہوکہ یہ اندازِ گفتگو کیا ہے
بغل میں غیر کی آج آپ سوتے ہیں کہیں، ورنہ
سبب کیا خواب میں آ کر تبسّم ہائے پنہاں کا
لیکن محبوب کے ساتھ چھیڑ خانی کرنے اور فقرے چسپاں کرنے کا یہ عمل یک طرفہ نہیں ہے۔ کلامِ غالبؔ کے آئینے میں اُن کا محبوب بھی اتنا ہی شوخ و شنگ، بذلہ سنج اور حاضر جواب ہے۔ چناںچہ غالبؔ کے ساتھ اس کی حرکتوں اور گفتگو میں شوخی و ظرافت کی پھلجھڑیاں چھوٹتی دیکھی جا سکتی ہیں۔ ملاحظہ ہوں یہ دلچسپ محاکاتی اشعار:
در پہ رہنے کو کہا اور کہہ کے کیسا پھر گیا
جتنے عرصے میں مرا لپٹا ہوا بستر کھُلا
تجاہل پیشگی سے مدّعا کیا
کہاں تک اے سراپا نازکیا کیا
داد دیتا ہے مرے زخمِ جگر کی، واہ واہ
یاد کرتا ہے مجھے، دیکھے ہے وہ جس جا نمک
میں نے کہا کہ بزمِ ناز چاہیے غیر سے تہی
سُن کے ستم ظریف نے مجھ کو اٹھا دیا کہ یوں
پِینس میں گزرتے ہیں وہ کوچے سے جو میرے
کندھے بھی کہاروں کو بدلنے نہیں دیتے
نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے ہیں لیکن
بہت بے آبرو ہو کر ترے کوچے سے ہم نکلے
طنز و ظرافت اور شوخی و حاضر جوابی دو دھاری تلواریں ہیں جن کا وار مدِّ مقابل کے ساتھ خود اپنے آپ پر بھی پڑتا رہتا ہے۔ اُس روایتی پیر زن کی مانند جسے کوئی جھگڑنے کو نہیں ملتا تو ہوا سے تکرار کرتی ہے، غالبؔ بھی محبوب اور رقیب کے ساتھ خود اپنی ذات کا مضحکہ اُڑاتے ہیں اور اکثر اپنے بارے میں ایسے پُر لطف اعترافات کرتے ہیں :
ہوا ہے شہ کا مصاحب، پھرے ہے اِتراتا
وگر نہ شہر میں غالبؔ کی آبرو کیا ہے
ہو گا کوئی ایسا بھی جو غالبؔ کو نہ جانے
شاعر تو وہ اچھا ہے پہ بدنام بہت ہے
گدا سمجھ کے وہ چپ تھا مری جو شامت آئی
اٹھا اور اٹھ کے قدم میں نے پاسباں کے لیے
چاہتے ہیں خوب رُو یوں کو اسدؔ
آپ کی صورت تو دیکھا چاہیے
عشق نے غالب نکمَا کردیا
ورنہ ہم بھی آدمی تھے کام کے
دے وہ جس قدر، ذِلّت ہم ہنسی میں ٹالیں گے
بارے آشنا نکلا اُن کا پاسباں اپنا
اُگاہے گھر میں ہر سو سبزہ، ویرانی تماشا کر
مدار، اب کھودنے پر گھاس کے، ہے میرے درباں کا
کاروبارِ عشق میں شوریدگی کے ہاتھوں غالبؔ جو مضحکہ خیز حرکتیں کرتے ہیں، ان کی دل چسپ تصویریں بھی اپنے اشعار میں محفوظ کر دیتے ہیں۔ ایسے چند تمسخر آمیز اور شوخ لفظی مرقعے آپ بھی دیکھیں :
ہو لیے کیوں نامہ بر کے ساتھ ساتھ
یا رب اپنے خط کو ہم پہنچائیں کیا
کعبہ کس منہ سے جاؤ گے غالبؔ
شرم تم کو مگر نہیں آتی
ہم نے مانا کہ کچھ نہیں غالبؔ
مفت ہاتھ آئے تو بُرا کیا ہے
خدا کے واسطے داد اِس جنونِ شوق کو دینا
کہ اُس کے درپہ پہنچتے ہیں نامہ بر سے ہم آگے
مگر لکھوائے کوئی اس کو خط تو ہم سے لکھوائے
ہوئی صبح اور گھر سے کان پر رکھ کر قلم نکلے
بنا کر فقیروں کا ہم بھیس غالبؔ
تماشاے اہلِ کرم دیکھتے ہیں
اور شوخی کی یہ لَے کہیں اتنی بلند ہو جاتی ہے کہ غالبؔ مرثیۂ عارف لکھتے ہوئے بھی اپنے جذبے کی شوخی پر قابو نہیں رکھ پاتے اور کہتے ہیں :
تم ایسے کھرے بھی تو نہ تھے داد و ستد کے
کرتا ملک الموت تقاضا کوئی دن اور
البتہ ایسے بے شمار اشعار کی روشنی میں یہ نتیجہ اخذ کرنا مناسب نہ ہو گا کہ غالبؔ محض ایک ظریف شاعر اور شوخ لہجہ رکھنے والے غزل گو تھے کیوںکہ یہ ان کے پہلو دار اسلوب کا ایک رُخ ہے، مکمل اسلوب نہیں۔ غالبؔ نے شاید ایسے ہی مواقع سے بچنے کے لیے کہا ہے :
ہمارے شعر ہیں اب صرف دل لگی کے اسدؔ
کھُلا کہ فائدہ عرضِ ہنر میں خاک نہیں

km

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

تنقید

شکیب جلالی

  • جولائی 15, 2019
از يوسف خالد شکیب جلالی—————-ذہنی افلاس اور تخلیقی و فکری انحطاط کی زد پر آیا ہوا معاشرہ لا تعداد معاشرتی
تنقید

کچھ شاعری کے بارے میں

  • جولائی 15, 2019
      از نويد صادق مولانا شبلی نعمانی شعرالعجم میں لکھتے ہیں: ’’ سائنس اور مشاہدات کی ممارست میں