پیکرِ عشّاق سازِ طالعِ ناساز ہے
نالہ گویاگردشِ سیارہ کی آواز ہے
مرزا غالبؔ
——————————
ستیہ پال آنند
مت ہنسیں، اے بندہ پرور ، میرے استفسار پر
جسم عاشق کا بھلا کیا اک سریلا ساز ہے
جو کہ اک بے تال سازندہ بجاتا ہے یہاں؟
پیکرِعشّاق‘‘ کیا بجتا ہوا باجہ ہے، جو
مائلِ فریاد رہتا ہے یہاں آٹھوں پہر؟
مرزا غالب
ہاں، کہ گو بھونڈا ہے یہ اظہار، پر اے ستیہ پال
اپنی کج گوئی میں پھر بھی قابلِ برداشت ہے
اب کہو کچھ اور کہنا ہے تمہیں اس باب میں؟
ستیہ پال آنند
ہاں، مرّبی، آپ گر برداشت کر پائیں اسے؟
مرزا غالب
جب بھی کوئی شعر کہتا ہوں، عزیزی، تو مجھے
اس کا اندازہ تو رہتا ہے کہ کیا سمجھیں گے لوگ
میرےمعنی ہی مرجع پھر بھی ہیں میرے لیے
اس لیے، گھبراؤ مت، کہنا ہے جو کچھ بھی، کہو
ستیہ پال آنند
مصرعِ ثانی میں ’’نالہ‘‘ ، مصرع اولیٰ میں ،’’ساز‘‘
ضلع کے الفاظ ہیں ۔۔۔اس میں تردد کچھ نہیں
ساز سے آہ و بکا کا شور اٹھنا تو ہے راست
پر یہ جزع و فزع ، یعنی ’’طالع نا ساز‘‘ ہے
دوسرے الفاظ میں یہ ساز خود بیمار ہے
یا کہ اس کی ’’راگنی‘‘ سُر میں نہیں، بے تال ہے
’’پیکرِ عشاق‘‘ کا باجا تو بجتا ہے، مگر
ماندہ و بیزار سا ، جیسے تھکا ہارا ہوا
کیا تھکا ماندہ ، غنودہ، کسل مند ہے یہ رباب
کیا غلط کہتا ہوں میں، اے پیرِ نالہ کش، کہو؟
کچھ تفرج یا تفنن رونے دھونے میں نہیں
مرزا غالب
سُن لیا، جو کچھ کہا تم نے، بہت تفصیل سے
مصر عِ ثانی پہ بھی کچھ تو کہو، میرے عدو
ستیہ پال آنند
مصرعِ ثانی کا، جو میں سچ کہوں تو، عالی جاہ
صرف ہلکا سا تعلق مصرعِ اولیٰ سے ہے
’’گردشِ سیّارہ‘‘ کا رشتہ ہے کیا ؟ علمِ نجوم؟
پیکرِعاشق کہ جو اک ’’طالع ِ ناساز ـ‘‘ تھا
اس تعلق میں فقط اک لا تعلق اسم ہے
ایسا ’’اسمِ معرفہ‘‘ تو طفل بھی لکھتےنہیں
آپ خود سوچیں ذرا، کیا ایسے لفظی کھیل میں
کچھ ملّخص ؟ منصرف ؟ صرفی و نحوی ربط ہے؟
صرف ہلکا سا اشارہ ہے ، تعلق کچھ نہیں
مرزا غالب
دو مصارع ؟ دو معانی؟ لا تعلق ؟ این و آں؟
کیا یہی مطلب ہے میرے شعر کا ، اے ستیہ پال؟
ستیہ پال آنند
کیا کہوں میں؟ آپ خود ہی فیصلہ کر لیں، حضور
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔