اسدؔ بزمِ تماشا میں تغافل پردہ داری ہے
اگرڈھانپےتو آنکھیں،ڈھانپ، ہم تصویرِعریاں ہیں
(غالبؔ)
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
(رن آن لائنز میں ایک مکالمہ)
ستیہ پال آنند
حضور اتنا تو فرمائیں کہ یہ گفت و شنید ِ باہمی کیا ہے
تخاطب کس سے ہے اور کون ہے جو یوں مخاطب ہے؟
عجب عذب البیانی ہے کہ متکلم نہیں کوئی
اگر ہے تو ، ضمیر ِِ جمع "ہم” کی کیا ضرورت ہے؟
مرزا غالب
تخاطب صاف ہے اے ستیہ پال آنند ، سوچو تو
اسدؔ‘‘ خود سے مخاطب تو نہیں اس شعر میں ، دیکھو
یہ کوئی اور ہی ہے جو اسے تلقین کرتا ہے
اسدؔ‘‘ خود سے مخاطب ہو بھی سکتا تھا، یہ ظاہر ہے
مگر اک لفظ ’’ہم‘‘ جو مصرع ِ ثانی میں آیا ہے
ہمیں گویندہ یا ناطق کی بابت شک میں رکھتا ہے
ستیہ پال آنند
یقیناً، بندہ پرور، یہ صحیح الراس نکتہ ہے
چلیں یہ فرض ہی کر لیں تخاطب تو اسدؔ سے ہے
اگر ایسا ہے تو ناطق یقیناً ہستیِ مطلق، خدا ہی ہے
تو کیا فرمان ہے اللہ کا خود اپنے بارے میں؟
کوئی پھر اُس کو( یعنی ہستی ء مطلق کو) دیکھے بھی
تو آخر کس حوالے سے؟کوئی ترکیب بتلائیں۔
مرزا غالب
اگر تم حاضر و موجود ہو ’ بزم ِ تماشا‘ میں
(یہی ہے علت ِ اُولیٰ کی سیدھی کلمہ جنبانی)
تو مجھ سے بے مروّت کیسے ہو سکتے ہو، اے بندے
تغافل کیش رہنا ، بے رخی، غفلت برتنا تو
اک ایسی ’پردہ داری‘ ہے، کہ جس سے تم نہ چاہو بھی
تو بچ کر ر ہ نہیں سکتے کہ یہ ’بزم ِ تماشا‘ تو
اسی اپنے تماشے میں مگن ہے روز ِ اوّل سے
ستیہ پال آنند
تو پھر کیسے یہ مشکل مسئلہ حل ہو گا ، استاذی؟
مرزا غالب
اگر تم ایسے نا اندیش ہو جس نے خود آنکھیں بند کر لی ہیں
تو یہ سمجھو، کہ اللہ خود ہی فرماتا ہے سیدھے سادےلفظوں میں
’’اگر ڈھانپے تو آنکھیں ، ڈھانپ ۔۔۔ہم تصویر ِ عریاں ہیں‘‘
کہ بند آنکھوں کے پیچھے سے بھی ’ہم‘ کو دیکھ پائو گے
ستیہ پال آنند
تو گوہا ہستی ء مطلق کا یہ فرمان سب خلقت کی خاطر ہے؟
مرزا غالب
تخاطب تو یقناً اپنے شاعر سے ہے، لیکن غور سے دیکھیں
کہ کہنے والا آخر کون ہے، جو ’’میں‘‘ نہ کہہ کر
ہم‘‘ کے اسم ِ معرفہ، یعنی ۔۔۔”
ضمیر ِ ِ جمع متکلم کی صورت میں ہی اپنا ذکر کرتا ہے؟
ستیہ پال آنند
صریحاً ایک ہے ۔۔۔اللہ
جو اِس شاعر ِکو ، یعنی آپ کو تلقین کرتا ہے
’’اگر ڈھانپے تُو آنکھیں ڈھانپ، ہم تصویر ِ ِعریاں ہیں‘‘
—————————————————-