یونس خیال
نویدصادق سے میراپہلاادبی تعارف تقریبابیس سال پہلے،۱۹۹۷ ء میں اُس وقت ہواجب اس کا مرتب کردہ غزلوں کا انتخاب’’پہلی دُھوپ‘‘ کے نام سے دیکھنے کوملا۔اس انتخاب میں اس کی اپنی غزلیں بھی شامل تھیں،جنھیں دیکھ کر اندازہ ہورہاتھا کہ اس کی غزل اپنے تشکیلی دور سے گزرتے ہوتے ایک مضبوط پیٹرن میں ڈھل چکی ہے۔ایک ایسا مخصوص پیٹرن جس میں سے نوید صادق کے ظاہری اور باطنی میلانات کو تلاش کیا جاسکے اوراس کے فنی اور فکری رویوں کو زیربحث لایاجاسکے:
۔۔۔ وقت کٹ بھی سکتا تھا ، ربط کی تسلی سے دل مگرنہیں مانا ،غم کے عہدِ ثانی پر
۔۔۔ یہ اوربات تجھے بھی سکون کم کم ہے مجھے بھی یاد کاآسیب مارے جاتاہے
اس دور کی شاعری اس بات کا احساس بھی دلاتی ہے کہ مسائل زدہ معاشرے اور نجی معاشی معاملات کے زیراثرشعرکہنے والایہ شخص بہت حساس فن کارہے جوایک طرف لفظوں سے تصویریں بنانے میں مصروف ہے اوردوسری طرف معاشی مشقت نے وقت سے پہلے اس کے سرپرسنجیدگی کی دستارسجادی ہے۔نویدصادق کواچھاشاعر اس کے انھی سنجیدہ رویوں نے بنایاہے اور یہی اس کی شاعری کاکمال ہے۔سفر کے آغاز پرہی وہ خود سے سوال کرتے نظر آتا ہے کہ:
نویدؔ وقت سے پہلے ہی چل پڑوں گھرسے
تھکن سفرکی مرے حوصلے نہ توڑے گی؟
سوال یہ ہے کہ ۱۹۹۷ء سے اب تک کی بیس سالہ’’مسافت‘‘ نے نویدصادق کوکیادیااور اگراس نے کچھ واقعی حاصل کِیاہے توکیا وہ اپنے قاری تک اس کا فیض پہنچانے میں کامیاب رہا ہے ؟ اس کا جواب ہمیں اس کے شعری مجموعہ’’مسافت ‘‘ سے تلاش کرنا ہوگا۔جن دوستوں کی نظرسے اس کی’’مسافت‘‘ گزری ہے وہ میرے ساتھ اتفاق کریں گے کہ ا س مجموعے میںشامل اَسی سے زیادہ غزلیں اس کے سفرکی خوشگواریت کے تمام پہلواپنے دامن میںسمیٹے ہوئے ہیں۔رایگانی کسی بھی سمت سے دکھائی نہیں دیتی۔اس نے نہ صرف اس مسافت کی کتھاسنانے کے لیے اظہارکا مخصوص اندازدریافت کرلیاہے بلکہ قاری کو اپنے تجربات آہستگی سے منتقل کرنے کا فن بھی سیکھ لیا ہے۔اور یہی کسی عمدہ فن کارکااثاثہ ہواکرتاہے۔
مسافت کی ورق گردانی کرتے ہوئے نویدصادق کی شاعری قاری کواپنے حصارمیں لے کراس کے طویل ادبی اورسماجی سفر کی کتھااس طرح سناتی ہے کہ ایک اپنائیت کااحساس ہوتاہے۔جیسے یہ کتھاہم سب کی اپنی ہواور اس نے وہ سب کچھ کہہ دیاہوجوہم نہ کہہ سکے۔اس مسافت کی کئی جہتیں ہیں۔ادھوری محبت کا شدیداحساس، زمانے کی بے حسی،غمِ روزگار ، ذات کی اندراورباہرکی فضاکاعدم توازن،یکسانیت میں لپٹے وعدوں کی عدم تکمیل اورجدیدمشینی دورکے انسان کے غیرفطری رویے۔
عشق شاعر ی کی بنیاد ہواکرتاہے لیکن عشق کے اعلان کا سلیقہ ہر شاعر کے ہاں مختلف ملتاہے۔نویدؔ کے ہاں محبت اور عشق دھیمے سُروں کی ایسی موسیقی ہے جوتوجہ چاہتی ہے۔اس میں نہ شورہے اورنہ چونکادینے کی کیفیت۔ اس گیت کوسننے کے لیے اس کے ساتھ جڑکر بیٹھناپڑتاہے۔اگرکوئی ایساایک بارکرپائے تو وہ اسی کا ہوکر رہ جائے اوراس کی کہانی میں اپنی کہانی تلاش کرنے لگے:
ترے وصال کی خواہش ادھیڑتی تھی بدن
میں زخم زخم ترے کھوج میں روانہ ہوا
دوسرے اہم شعرا کی طرح نویدصادق نے بھی اپنے ہاں کچھ پسندیدہ علامتوں کا ایک جہان بسایاہواہے جن سے اس کی شاعری اور شخصیت کی گرہیں کھولنے میں مدد ملتی ہے۔ آنکھ، نیند،خواب ، خوشبو ،آئینہ ، گھر،سفر اور راستے۔ اس کی ٖغزلوں میں یہ سب علائم کسی نہ کسی طورایک دوسرے سے جڑی ہوئی ملتی ہیں۔آنکھیں،فطری عشق کے علاوہ غربت اورجہالت میں لتھڑے ،مسائل زدہ معاشرے کاسب سے پہلاشکارہوتی ہیں۔جوکسی باشعورآدمی کویاتوفکری سطح پرمفلوج کردیتی ہیں یاردِ عمل کے طور پربغاوت کی طرف مائل کردیتی ہیں۔اسی فکری ردِ عمل سے پھوٹنے والی روشنی کے مختلف رنگوں سے کوئی فن کاراپنے شاہکارکوترتیب دیتاہے۔اس بغاوت کے پہلوذہنی استعداد کے مطابق مختلف توہوسکتے ہیں لیکن ابتدایہی ہے:
۔۔۔ کوئی تھا ، جس کی آنکھوں میں نمی تھی کسی سے رات جھگڑاہورہاتھا
۔۔۔ کل شام کیا بتاوں مرے ساتھ کیا ہوا تارِ نظر سے اپنا بدن کاٹنا پڑا
نیندا ور خواب ، آنکھوں کے راستے درآنے والے موسموں کے تابع ضرور ہوتے ہیں لیکن اندرکے موسم سے ان کی مطابقت اگرممکن نہ ہوپائے توپھریہ دونوں ایک عجیب ساانتشارپیداکردیتے ہیں۔اورجب نیندکی دیوی ہی مہربان نہ ہوتوپھر خواب کہاں؟کھلی آنکھوں سے خواب دیکھنے کا عمل بہرحال ایک الگ معاملہ ہے جو ہرشخص کومیسرنہیں ہوتا۔ہماراشاعرسوتے جاگتے خواب دیکھتاہے۔اس عہد کے انسان کے رویوں میں تبدیلی کا خواب۔انسانیت کے عروج کاخواب۔وہ خواب جو ہم سب کاسانجھاہے:
۔۔۔ تھک ہار کر نویدؔ مرے دائیں ہاتھ پر کاسہ بدست وقت مری نیند سوگیا
۔۔۔ اس کی آنکھیں دھیان میں رکھنے والے لوگ برسوں سے بیدار دکھائی دیتے ہیں
۔۔۔ میری آنکھوں نے کئی رنگ دکھائے تھے مجھے میری آنکھوں میں فقط خواب نہیں،توبھی تھا
۔۔۔ پسِ شگوفہ جاں اضطراب رکھاہے اٹھا سکے تو اٹھا ، میرا خواب رکھاہے
نویدؔ کے ہاں’’آئینہ‘‘ کثیرالجہات معانی لیے ہوئے ،سب سے اہم اورتواناعلامت کے طورپرابھرا ہے۔ہم کلامی کے اندازمیں اپنی ذات کومحبت کا گواہ بنانا مقصودہویا انسانی رویوں کی تبدیلی کی کوشش کو شیشہ سازی کے عمل سے مشابہ قراردیتے ہوئے اپنی انگلیوں کے زخموں کا شمارکرنا ہو،محبوب سے کیے وعدوںکی شکستگی کاماتم کرتے ہوئے،سماجی زنجیروں میں بندھے محبوب کی بے وفائی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے، اپنی عمر بھرکی تنہائی کی اذیت کاذکر کرتے ہوئے، خوداحتسابی کے کڑے عمل سے گزرتے ہوئے اور شعری تخلیق میںاپنی ذات کی تقسیم کااعلان کرتے ہوئے،اُس نے اس علامت کو ہرحوالے اور زاویے سے الگ معانی میں باندھ کراپنی تخلیقی قابلیت کااظہارکیاہے:
آئنے کو گواہ کرتا ہوں
میں زمین اوروہ آسمان تھارات
اپنے ہاتھوں کی خراشوں سے پریشان نہ ہو
آتے آتے کہیں آئینہ گری آتی ہے
اُلٹے سیدھے سوال کرتا ہے
آئینہ بھی کمال کرتا ہے
آئنہ توڑ کرخیال آیا
اس سے بہتر بھی ایک صورت تھی
ہم اکیلے ہیں مگر محسوس ہوتا ہے نویدؔ
آئنوں کوآئنوں کے درمیاں رہناپڑا
حیرتِ آئنہ تمام ہوئی
اور اب آئنہ نما ہوں میں
یہ غزل دل کاآئنہ ہے نوید ؔ
کتنے ٹکڑوں میں بٹ گیا ہوں میں
جومیراحال کسی دل پہ آئنہ نہ ہوا
مَیں اپنی ذات کی تمثیل میں ہُوانہ ہُوا
نوید صادق کی شاعری اورشخصیت میں ایک خاص قسم کا ٹھہراوہے۔اس نے پہلاشعری مجموعہ منظرِعام پرلانے کے لیے بیس سال سے زیادہ عرصہ تک انتظارکیا۔ حالاں کہ نوے کی دہائی میں اس کی شاعری کی شناخت ہوچکی تھی اور اس کاکلام ملک کے معیاری ادبی پرچوں میں چھپ رہاتھا۔ یہ اس کے مزاج کی خوبی ہے جس کی وجہ سے یہ خود اور اُس شاعری دونوں خودنمائی اور سستی شہرت کی آلودگی سے محفوظ رہے۔ وہ دھیرے دھیرے اپنی مسافت کے دوسرے مرحلے میں داخل ہورہاہے۔اسے شہرتیں سمیٹنے کی جلدی نہیں ہے۔ وہ جانتاہے کہ قبل ازوقت پہلی صفوں میں نام لکھوانے کی خواہش کے نتیجوں کودوام حاصل نہیں ہوتا.
اکثر پہلی صف کے لوگ
منظرسے ہٹ جاتے ہیں