از: یوسف خالد
جذبے کی حواس خمسہ سے حاصل شدہ توانائی تخلیقی عمل میں صرف ہوتی ہے تو فن تشکیل پاتا ہے-یوں فن پارے کے تار و پود میں تخلیق کار کا حسی تجربہ شامل ہو جاتا ہے جو قاری کے نظام فکر اور مزاج سے ہم رشتہ ہو کر ایک جمالیاتی فضا پیدا کرتا ہےاور قاری کے لیے لطف و سرشاری کا سامان مہیا کرتا ہے-ایک اچھا فن پارہ قاری کو شعوری اور حسی دونوں سطحوں پر متاثر کرتا ہے تا ہم قاری اسے اپنے حواس کے ذریعے اپنی ذات میں داخل کرتا ہےنہ کہ شعوری طور پر-
ڈاکٹر وزیر آغا نے ایک جگہ شعر کے حوالے سے کہا تھا کہ
( شعر اس مشکیزہ کی مانند نہیں جس میں پانی بھرا ہوا ہے بلکہ وہ تو برف کی اس قاش کی طرح ہے جو بیک وقت برف بھی ہے اور پانی بھی-مراد یہ کہ شعر کے قالب میں معنی بند نہیں ہوتا——–اور نہ شعر زندگی کے کسی پہلو کا ہو بہو عکس ہوتا ہے بلکہ شعر کا بدن اور اس کا معنی یک جان اور دو قالب ہوتے ہیں)
چونکہ معنی کا اظہار لفظ کی بند مٹھی کھلنے پہ ہوتا ہے اس لیے لفظ کی داخلی توانائی تک رسائی معنی کی دنیا سے منسلک ہونے کے لیے پہلی شرط ہے-علامہ اقبال رح نے اسی لیے کہا تھا کہ–
معنی کا حس نہیں تو ترے دل میں کچھ نہیں
لیلیٰ اگر نہیں ہے تو محمل میں کچھ نہیں
لفظ معنی کا لباس ہے اور جٓذبے کی صورت گری کے لیے بنیادی ضرورت-جذبہ اپنی عریاں حالت میں کثیف اور بوجھل ہوتا ہے-تخلیقی عمل سے گزر کر جب ادب پارے میں ڈھلتا ہے تو جذبے کی تہذیب ہو جاتی ہے-ادب پارہ جذبے کو اس طور اپنے اندر جذب کرتا ہے کہ قاری کے لیے ایک لطیف اور معطر فضا میسر آ جاتی ہے جو اسے جمالیاتی مسرت سے ہمکنار کرتی ہے
اس لیے یہ ضروری ہے کہ افراد کے لیے ادب فہمی کی تربیت کا اہتمام کیا جائے تا کہ وہ فن کے ذریعے جذبے کی بلند اور برتر سطح کو مس کر سکیں -اور احساس کا اجلا پن تحصیل مسرت کا باعث بن سکے