داستانیں ہوں یا ناول اور افسانہ کردار اساسی حیثیت رکھتا ہے۔کردار جس قدر توانا اور مضبوط ہو گا ، کہانی اسی قدر جان دار پختہ اور دلچسپ ہو گی۔ڈاکٹر میمونہ انصاری کی اس راۓ کی تائید میں کوٸ امر مانع نہیں کہ انیسویں صدی کے ناولوں میں غالب رجحان کردار نگاری کا ہے اور یہ رجحان۔۔۔فرد پرستی کی نفسیات سے ابھرا تھا۔ یہی سبب ہے کہ انیسویں صدی کے ناولوں میں واقعہ اپنی جگہ پر بہت اہمیت نہیں رکھتا بلکہ واقعہ کردار کے تابع ہے۔۔۔(رسوا ایک مطالعہ ، ص٢٥)۔اس کے بالعکس ڈاکٹر احسن فاروقی کردار اور واقعہ کو برابر اہمیت دیتے ہیں اس لیے کہ کردار واقعہ یا قصہ کا حامل ہوتا ہے۔” فردوسِ بریں” کی بنیادی شناخت اس کے کردار ہی ہیں اور یہ کردار بہت مضبوط ہیں،ان کے بر محل مکالموں نے ناول کے تاثر کو اور بہتر بنا دیا ہے۔مکالمے کہیں مختصر اور کہیں طویل ہیں مگر قصے کو آگے بڑھانے اور منطقی انجام تک پہنچانے میں بے حد معاون ہوتے ہیں۔
ناول نگار کی فنی چابک دستی کا ایک امتحان یہ ہوتا ہے کہ اس نے کہانی کے کرداروں کو کس حد تک جان دار بنایا ہے اور کس حدتک ان کی سیرت اور شخصیت میں کوٸ ایسا امتیازی پہلو ہے جس کی بنا پر وہ زندگی کے رنگ میں ڈوبے ہوۓ ہونے کے باوجود لوگوں سے مختلف نظر آتے ہیں جن سے ہمیں ہر وقت سابقہ پڑتا رہتا ہے، سید وقار عظیم نے ناول کی کہانی میں کرداروں کی دو صورتوں کی جانب اشارہ کیا ہے:
١ ۔ کردار ہمیں کہانی کے شروع میں جیسا نظر آتا ہے،وہ ماضی کے واقعات نے اسے بنایا ہے۔ماحولياتی کے گوناں گوں اثرات نے اس کی شخصیت کو ایک خاص سانچے میں ڈھالا ہے اور اس شخصیت کی انفرادی خصوصیتیں ہیں جو اس کے لیے خاص ہیں۔کہانی کے اگلے حصوں میں کردار جو کچھ کہتا اور کرتا ہے وہ اس کے مزاج کی اس مخصوص ساخت کے مطابق ہوتا ہے۔
٢۔ ہماری شناسائی ان سے ان کی زندگی کے اس دورمیں ہوتی ہے جب ماحوليات نے ان پر پورا اثرنہیں کیا ہے۔ ماحول آہستہ آہستہ ان پر اپنا اثر ڈال رہا ہےاور آہستہ آہستہ ان کی سیرت کی تشکیل و تعمیرہو رہی ہے۔ایسے کرداروں کو ہم پوری کہانی میں برابر ایک سا رنگ قبول کرتا محسوس کر رہے ہیں۔یہاں تک کہ کہانی ختم ہوتی ہے تو یہ کردار بھی اپنے پورے قدوقامت کو پہنچے ہوۓ نظر آتے ہیں ۔”(مقدمہ۔فردوس بریں ،ص١٧)، سید
وقار عظیم کا کہنا یہ ہے کہ ’’فردوس بریں‘‘ کے کرداروں کی ساخت دونوں طرح کے فنی عمل سے ہوئی ہے اور ناول نگار کی کامیابی یہ ہے کہ جس طرح پلاٹ کے کسی حصے کی طرف سے اس کے دل میں (بعض اوقات متحیرومتعجب ہو جانے کے باوجود) شبہ یا بے یقینی پیدا نہیں ہوتی،اسی طرح کردار بھی جو کچھ کہتے اور کرتے ہیں وہ ان کے مزاج کی بنیادی خصوصیتوں سے ہم آہنگ ہے ۔(ایضاً ص١٧۔١٨)،
وقار عظیم بعض خوببوں کی بنا پر زمرد کوحسین کے مقابلے میں زیادہ پر کشش کردار قرار دیتے ہیں وہ خوبیاں ان کے نزدیک اس کا حسن و جمال نہیں بلکہ اس کی مستقل مزاجی،دور اندیشی ،مصلحت بینی،ضبط ،تحمل،احتیاط اور پاک دامنی ہیں۔تاہم میری راۓ میں ” فردوسِ بریں” کا سب سے توانا کردارحسین کا ہے جو اپنی محبت کے حصول کے لیے تڑپتا ہے۔اس کی بے قراری اس ایک پل چین نہیں لینے دیتی۔وہ خواہش مند ہے کہ اسے زمرد کا قرب حاصل ہو جاۓ ۔اس مقصد کے لیے وہ کچھ بھی کرنے کو تیار ہے ،زمرد ایک جامد کردار ہے جب کہ حسین پارے کی طرح ایک متحرک اور فعال کردار ہے۔وصال کی لذتیں اپنی جگہ مگر وصال کے بعدفراق ایک سچے اور دردِ دل رکھنے والے محب کے لیے بہر حال ایک تکلیف دہ امر ہے۔ جنت میں حسیں کا قیام عارضی تھا۔اسے بتایا گیا کہ یہاں ہمیشہ کے لیے آنے والوں کو معاملات و متعلقاتِ حیات سے ناتا توڑنا پڑتا ہے۔حسین کو یہ بات سن کر بہت رنج ہوتا ہے کہ اسے یہ حسین و جمیل مقام چھوڑ کر ایک بار پھر اپنی دنیا میں لوٹنا پڑے گا۔اس پر حسین آبدیدہ و ہو گیا اور نہایت ہی جوشِ دل سے ایک آہِ سرد کھینچ کر بولا:
” آہستہ ! روۓ گل سیر ندیدم و بہا ر آ خر شد ! مجھے تو ابھی تیرے وصال کا لطف نہیں حاصل ہوا مگر زمرد مجھ سے تو اب نہ جایا جاۓ گا۔اب اس وقت سے میں ہر وقت تیرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیے رہوں گا تاکہ کوٸ مجھے تجھ سے جدا نہ کرخ دے” یہ سن کر زمرد بھی آبدیدہ ہو گیی اور بولی:” حسین ! یہ امر تمہارے اختیار سے باہر ہے۔جب وقت آۓ گا خبر بھی نہ ہو گی اور ایک ادنیٰ غنودگی تمہیں سخت عالم میں پونچا دے گی۔۔۔” حسین (رو کر)” پھر تو مجھ سے تمہارے فراق کی مصیبت نہ برداشت کی جاۓ گی۔جاتے ہی اپنے آپ کو ہلاک کر ڈالوں گا اور تم سے چھوۓ ایک گھڑی بھی نہ گزری ہو گی کہ پھر تمہارے پاس آ پہنچوں گا "( فردوسِ بریں ،ص١٢٣)،
غمِ فراق کی ایکہ صورت داستان کے آغاز میں دکھائی گئی ہے جب زمرد اور حسین حج کے لیے گھر سے نکلتے ہیں مگر زمرد نے اچانک اس مقام پر جانے کی خواہش کا اظہار کیا جہاں اس کے بھائی موسیٰ کی قبر تھی۔گھاٹیاں عبور کرتے بالآخر وہ قبر پر پہنچ جاتے ہیں ،فاتحہ خوانی کے معاً بعد زمرد کی حالت شدتِ غم کے باعث غیر ہونے لگتی ہے۔ حسین اسے دلاسا دیتا رہا مگر اپنی دگرگوں حالت کو دیکھ کر زمرد نے حسین سے کہا کہ حسین مجھے اپنی زندگی کی امید نہیں۔حسین بھیگی آنکھوں سے کہنے لگا:
"میں تمہارے بغیر نہیں رہ سکتا اور جس کسی کے ہاتھ سے یہ وصیت پوری نہیں ہو گی وہ تمہارے ساتھ میری ہڈیوں کو بھی ان ہی پتھروں کے نیچے دباۓ گا ۔” (ص٥٤)،
یعنی حسین کسی صورت اپنی محبوبہ کی جدائی برداشت کرنے کو تیار نہیں اور اس کی خاطر وہ اپنی جان بھی قربان کرنے کو تیار ہے ۔۔حسین لذت ِ وصال کا قائل ہے۔حسین اسکے ساتھ مرنے کو تیارہے مگر زمرد اپنی پاک دامنی کی خبر لوگوں تک پہنچانے کے لیے اسے زندہ دیکھنا چاہتی تھی۔حسین اس سے وعدہ تو کر لیتا ہے مگر وہ افسردگی کی سخت گرفت سے خود کو آزاد نہیں کرا پاتا، حسین سمجھتا ہے کہ وہ جوکچھ حاصل کرنا چاہتا ہے شیخ علی وجودی اس ضمن میں اس کا رہبر بن سکتا ہے۔وجودی اپنی مسحور کن شخصی اور ماورائی قوتوں کا حامل ہونے کی بنا پر حسین کو خود سے دور نہیں ہونے دیتا،اس لیے کہ وہ حسین کی جذباتی طبیعت سے خوب واقف تھانجم الدین نیشا پوری اور نصر بن احمد کے بعد وجودی سے اس کی عقیدت اور پھر نفرت دونوں انتہاٶں پر تھیں وہ ان کی اصلیت جان لینے کے بعد ان سے جو سلوک کرتا ہے وہ بھی ناولہ میں تجسس پیداکرنے کا وسیلہ ہے۔۔
” فردو س بریں‘‘ کے جملہ کردار ناول کو وقت اور وسعت عطا کرنے کا موجب ہیں۔مذکورہ کرداروں کے ساتھ طور معنی،بلغان خاتون،ہلاکو خان بھی اہم ہیں۔شرر ایک ایسے ناول نویس ہیں جنھوں نے اپنے ناولوں کا خام مواد تاریخ کے جھروکوں سے حاصل کیا اور اپنے تاریخی شعور کو بڑی ہنرمندی سے اپنے فکر و فن کا حصہ بنایا،وہ اس بات کو خوب سمجھتے تھے کہ وہ تاریخ کی کتاب نہیں بلکہ ادب تخلیق کرنے جا رہے ہیں سو انھوں نے تاریخی حقائق کو ادب کی حساسیت اور لطافت پر حاوی نہیں ہونے دیا،اپنی منشا کے مطابق نتائج اخذ کرنے پر انھیں تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا مگر یہ طے ہے کہ انھوں نے اردو ناول کو موضوعاتی اعتبارسے آگے بڑھایا اور اس ضمن میں انھیں کردارسازی پر کامل عبوربھی حاصل تھا۔