کتاب: اردو کا ادراکی تنقیدی دبستان
مصنف: فرحت عباس شاہ
تعارف و تبصرہ: ثمینہ سید
پبلی کیشنز: رنگِ ادب کراچی
"ادراکی تنقید اصل ارتقاء ہے”
"اَدب ” زندگی شائستگی سے گزارنے کا نام ہے۔ جو اور جیسی زندگی سماجی، معاشی،ذاتی، سیاسی،اور تاریخ و ثقافت کے لحاظ سے گزر رہی ہےاسے کہہ دینے یعنی لفظوں کے حوالے کردینا، اور خود ہلکے پھلکے ہوجانا لیکن "تخیل” شامل ہو تو ادب ہے۔ باتیں گھڑنے کی صلاحیت نے داستان کو جنم دیا۔ اصل میں یہ ” تخیل ” تھا ادراک اور شعور تھا جو جذبات و احساسات کو اور ماحول کو زبان دے کر کہانی بنا لیتا تھا۔ انسان چونکہ خود ایک تخلیق ہے۔ نسل درنسل وہ ارسطو کے نظریہ نقل کی نقل کو تخلیق بنانے میں نجانے کب سے کوشاں ہیں۔ اب داستان گھڑ تو لی لیکن داستان گو نثری داستان گھڑ رہا ہے یا منظوم۔ وہ کیسا لب ولہجہ اور زبان استعمال کررہا ہے؟ جو عام فہم ہے، جس میں آرائش و زیبائش ہے یعنی حسن ِنظر، افسانوی رنگ۔ جمالیاتی حِس اور عام باتوں سے ماوراء، کسی قدر مبالغہ ہو گا تو وہ تحیر کی فضا بنا سکے گا۔ اب سننے والوں میں کچھ لوگ اپنے حساب سے غور کرتے ہیں کہ تخلیق کار فضا بنانے میں، سامعین، قارئین اور ناظرین کی توجہ حاصل کر سکا؟ یا نہیں۔ یہ نقاد تھا، جو غوروفکر، فہم وادراک کے دریچے کھول کر بیٹھا ہے جس کی تمام تر حسیات سماعت بنی رہتی ہیں جو عام آدمی سے زیادہ سنتا، سمجھتا اور پرکھتا ہے۔ جو تخلیق سے مسرت اور ملال کشید کرتا ہے۔ہم نے اردو ادب میں تنقید انگریزی ادب سے سیکھی اور بہت بھاری اصطلاحات کے ساتھ تراجم کے سانچوں میں ڈھال دیں۔
ڈاکٹر سید عبداللہ اپنی کتاب ” ولی سے اقبال تک” میں لکھتے ہیں۔
” میتھیو آرنلڈ کے نزدیک وہ تمام علم جو کتب کے ذریعے ہم تک پہنچتا ہے، ادب کہلاتا ہے۔ میتھیو آرنلڈ اپنے عہد کی اخلاقیات کا نقاد اور معترض تھا۔ وہ شاعر بھی تھا اور نقاد بھی لیکن ان اوصاف کے علاوہ وہ نقادوں کا نقاد اور معاشرے کا نقاد بھی تھا۔ "۱
اب ایک بات تو واضح ہوگئی کہ ادب کو نقاد کی ضرورت ہے۔ دوسری بات یہ کہ نقاد اور معترض میں فرق ہے۔ نقاد تحریر کی پرکھ کرے گا، غیر جانبدار طریقے سے جبکہ معترض صرف اعتراض اور نکتہ چینی کرتا ہے۔ وہ منفی رائے زیادہ دیتا ہے۔
تیسری بات یہ کہ نقاد اگر شاعر اور ادیب بھی ہو تو وہ اپنے ارد گرد پھیلے علم کے گذشتہ اور حاضر خزانے کو اپنے اندر انڈیلتا ہے تاکہ وسیع المطالعہ ہوکر اپنی رائے دینے کے قابل ہوسکے۔ یہی وجہ ہے کہ ادب میں زیادہ تعداد میں نقاد نہیں ہوتے۔ یہاں ایک اور مضبوط وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارے سامنے تنقید کو ثقیل بنا کر، دشوار انداز میں پیش کیا گیا کہ خود ادب کا طالب علم اس صنف ادب سے دور بھاگنے لگا۔ اس قدر مشکل الفاظ جو انگریزی سے اردو تراجم کی صورت ہم پر لاگو کردیے گئے کہ ” تنقید ” کا لفظ ہی ناگوار ہوگیا۔ میں خود کئی سال سے ادب کی مختلف اصناف میں طبع آزمائی کررہی ہوں حتیٰ کہ کتابیں پڑھ کر گہرائی سے ان کے موڈ اور موٹیویشن، مقاصد اور اثرات پر رائے دیتی رہتی ہوں۔ لیکن جب مجھے تنقید بحیثیت ایک سبجیکٹ پڑھنے کی ضرورت پڑی تو چودہ طبق روشن ہوگئے۔ چند مخصوص مصنفین کی کتابیں پڑھائی جاتی ہیں۔ جنہوں نے افلاطون اور ارسطو کی تحریروں اور نظریات کو ہی الجھا کے رکھ دیا ہے۔ ایڈگرایلن پو، میتھیو آرنلڈ، رسکن، والٹرپیٹر، ہینری جیمسن،ٹی ایس ایلیٹ، آئی اے رچرڈ سن آپ ان کے خالص نظریات کو پڑھیں تو نظم و نثر سے زیادہ لطف اندوز چیز تنقید ہے لیکن انہی کے کہے کو اردو میں ایک عفریت بنادینے والی تنقید ہمارے ہاں مرتب کی گئی۔ ہندوپاک کے تنقید میں بڑے نام آل احمد سرور، احتشام حسین، کلیم الدین احمد ، ڈاکٹر انیس ناگی، پروفیسر خورشید الاسلام، محمد حسن عسکری، گوپی چند نارنگ، شمس الرحمٰن فاروقی، ڈاکٹر وزیر آغا، پروفیسر قمر رئیس، سلیم احمد، ڈاکٹر عبدالرحمٰن بجنوری، عبدالقادر سروری اور سید سجاد ظہیر، اس کے علاوہ بھی بہت سے نام ہیں، جنہوں نے تنقید میں مستند نظریات دئیے۔ان ناموں اور ان کے نظریات سے بھی اتفاق اور رَد کی بحث ہر دور میں چلتی رہی ہے ۔ بحث ادب کی جاوداں زندگی ہے جو ارتقاء کا ذریعہ بنتی ہے۔ عہد حاضر میں جمیل الدین عالی، ناصر عباس نئیر،امجد طفیل اور دیگر نقادوں نے بھی کمرشل ہونے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی یعنی انہوں نے تنقید کے بھاری تاثر کو آسان دکھانا چاہا۔اس کے باوجود تنقید عام دلچسپی اور رجحان کی چیز نہیں بن سکی۔
حال ہی میں فرحت عباس شاہ صاحب نے ادراکی تنقید سے تعارف کروایا۔ کتاب جب تک ہاتھ میں نہیں آئی تھی میں نے یہی اندازہ لگا رکھا تھا کہ یہ ایک اور مشکل ترین چیز ہوگی خیر اسے بھی سمجھنا تو پڑے گا۔ علم وادب مسلسل تربیت اور تزئین کا متقاضی رہتا ہے۔ کتاب”اردو کا تنقیدی دبستان ” شاہ صاحب نے مجھے عنایت کی۔ تو میں پڑھتی چلی گئی۔ آغاز سے اختتام تک انہوں نے فہم وادراک کے مختلف مراحل تک ایسی آسانی اور سہولت سے سفر کروایا کہ کسی دشواری یا بوجھل پن کا احساس تک نہیں ہوا۔ مجھ پہ پہلی بار یہ کھلا کہ تنقید اصل میں ادراک کی دین ہے اسی کی عطا ہے۔ اس سے پہلے میں نے ڈاکٹر عبادت بریلوی کی کتاب” غزل اور مطالعہ غزل” میں پڑھا تھا۔
"اصناف ادب کی تخلیق کسی معجزے کی محتاج نہیں ہوتی، مخصوص جغرافیائی حالات اور ان کے نتیجے میں پیدا ہونے والی مخصوص تمدنی اور معاشرتی ماحول تخلیق میں ممدو معاون ہوتا ہے۔ ” ۲
یہاں ہم دیکھتے ہیں ادیب کے پاس اپنا ایک مخصوص نقطہ نظر اور فکر ضرور ہے لیکن وہ لگے بندھے قوانین کا پابند ہو یہ ضروری نہیں۔ فرحت عباس شاہ نے ادراکی تنقید کو یوں دلکشی بخشی کہ
"ادراکی تنقید پہلے سے موجود تصورات و نظریات کی عینک سے ادب کی چھان پھٹک کی بجائے فنون کو ان کے بنیادی تخلیقی جواز کے آئینے میں دیکھنے کا نام ہے۔ ادیب کوئی ناول کیوں لکھتا ہے؟ مصور تصویر کیوں بناتا ہے اور کیسے بناتا ہے؟ اور وہ اس میں کس حد تک کامیاب رہا؟. "۳
خود ہی ایک سوال اٹھاتے ہیں کہ جب تنقید کے اتنے دبستان پہلے سے موجود ہیں تو پھر ادراکی تنقید کیوں؟ اس کا جواب یوں دیتے ہیں۔
"پہلے سے موجود دبستان براہ راست فنون لطیفہ کی پرکھ اور پرچول کے لیے نہیں بنائے گئے بلکہ پہلے سے موجود نظریات کے معاشرے اور فرد پر اثرات اور اثر و نفوذ کے باعث موءثر نقطہ نظر کے طور پر ان کی روشنی میں تخلیق کی پرکھ پرچول کی ضرورت کے تحت لاگو کیے گئے ہیں۔ جبکہ ادراکی تنقید تمام فنون لطیفہ پر بالعموم اور ادب پر بالخصوص جغرافیے یا تہذیب و تمدن اور شعبے تک محدود نہیں۔ "۴
یعنی کہ ادراکی تنقید گھٹن زدہ اور اکتاہٹ سے بھرے بھاری پن کو لاگو نہیں کرتی۔ بلکہ تنقید کے جمالیاتی اوصاف کو کھولتی اور پیش کرتی ہے۔
اس کتاب کے بارے میں کچھ آراء یہ ہیں۔
"اردوکا ادراکی تنقیدی دبستان” (Perceptionalism)، عمومیت کا دائرہ توڑ کر خصوصیت کے ساتھ منظرِعام پر آگئی۔ تنقیدی رویوں میں مقامیت کی شناخت کے ساتھ ادبی منظر نامے میں ایک بالکل نئی جہت کا آغاز ہوگی۔”
اسد محمود خان، مضمون،اردو، ادراکی تنقید،انڈیجینس لٹریچر، پیراڈائیم ،فیس بک، ۱۳ اکتوبر، ۲۰۲۳ءلاہور…۵
” فرحت عباس شاہ جیسے صاحب نظر نقاد اور تخلیق کار نے اس تنقیدی جمود کو توڑنے کی پہلی بھرپور کوشش کر دی ہے جو کچھ دنوں تک کتابی صورت میں ہمارے سامنے ہو گی۔اس وقت تھیوری والی تنقید اور سماجیات سے لدی تنقید نے جس طرح ادبی تنقید کا چہرہ مسخ کر رکھا ہے یہ کتاب اس اثر کو زائل کرنے کا فریضہ بھی انجام دے گی۔فرحت عباس شاہ کا کمال یہ ہے کہ وہ ادبی بطل پرستی کو خالص علمی اور منطقی دلائل کے ساتھ نیز ادبی اور ذوقی پیمانوں کی بنیاد پر رد کرتے ہیں۔اس وقت ایک ایسے ہی نقاد کی ضرورت تھی جو ادبی تنقید کی کھوئی ہوٸی ساکھ کو بحال کرے۔ادب کے ہر سچے قاری کو اس کتاب کا مطالعہ کرنا پڑے گا۔
عامر سہیل، مضمون، کتاب”اردو کا ادراکی تنقیدی دبستان، ۹ ستمبر ۲۰۲۳ء۔۔۔۔ ۶
"عہد ِ حاضر کے عظیم شاعر اور مفکر فرحت عباس شاہ نےاکنامکس ،ماٸیکروفاٸنانس ، بنیادی لاشعور کی نفسیاتی تھیوری اور اب یہ ادراکی تنقید چار تھیوریاں پیش کرکے ہمارا قومی شکوہ دُور کیا کہ ہمارے ہاں کوٸی موجد ، تھیورسٹ یا نظریہ ساز کبھی پیدا نہیں ہوا ۔ دوسرا حقیقی ادب اور حقیقی ادیب کو اہمیت ، عزت اور ترجیح دینے کی ضرورت اور اہمیت کا شعور اجاگر کرنے کی تحریک کا عملی نمونہ خود پیش کرکے دکھا دیا ہے تاکہ زبانی کلامی گفتگو کرکے پتلی گلی سے نکل جانے والے دانشوروں کی منافقت بے نقاب ہوسکے ۔
ہماری خوش نصیبی ہے کہ ہمارے اس مشکل ترین علم اور ادب دشمن عہد میں ایک بڑا انسان سر تان کے کھڑا سماج کے بچے کھچے اہل علم اور اہل بصیرت افراد کو عزت دینے کا قرینہ سکھا رہا ہے ۔
علی نواز شاہ، مضمون، کتاب ” اردو کا ادراکی تنقیدی دبستان "لاہور ، ۱۰ اکتوبر ۲۰۲۳ء……۷
” فرحت عباس شاہ نے اس تنقید کا تاروپود گزشتہ کی بجائے آئیندہ کی حکمت عملی سے ترتیب دیا ہے۔ وہ تھیوری کے نام پر کنفیوزن پیدا کرنے والے نقادوں کو سخت ہدفِ تنقید بناتے ہیں اور مرعوب ذہنوں کو دعوت فکر دیتے ہیں۔ان نقادوں نے مغربی فکر کو لنڈے کے ملبوسات کی طرح قبول کرلیا ہے اور تفاخر سے سینہ پھیلا کر چلتے ہیں۔ ”
ڈاکٹر شاہد اشرف۔۔۔۔ اردو کا ادراکی تنقیدی دبستان، ۸
مندرجہ بالا تمام شہادتوں سے ہم ادراکی تنقید اور فرحت عباس شاہ کی پیش کردہ اس کاوش ” اردو کا ادراکی تنقیدی دبستان ” کی وجہ اور غرض و غایت تک سفر کر آئے ہیں۔ ہم پر ادراکی آسانیاں واضح ہوچکی ہیں۔ اور دوسرے تمام دبستان جو اصل میں سابقہ طےشدہ پیمانے ہیں ان کا بخوبی ادراک ہو چکا ہے۔
سلیم اختر،تنقیدی دبستان، سنگ میل، ۱۹۹۷ء
"تخلیق ہو یا تنقید۔۔۔ تصوراتِ نو کے چراغ فروزاں ہوتے رہتے ہیں۔ ساتھ ہی کچھ چراغوں کی لو مدھم پڑ جاتی ہے، کچھ بجھ جاتے ہیں تو کچھ بجھنے کے بعد دھواں دیتے رہتے ہیں۔ یہی زندگی کا چلن ہے۔ "۹
یہاں ہم نے دیکھا سلیم اختر اس حقیقت کا اعتراف کررہے ہیں کہ زمانے کے تغیر کے ساتھ ادب کی ہئیت، معیار اور اسے پرکھنے کے تنقیدی سانچے بدلتے رہنے کی ضرورت ہے۔ یہ کتاب عہد حاضر کے بہترین قلمکار جنہیں نظرانداز کیا گیا ہے ان کے فن کی معراج کے روشن گوشوں تک ہمیں رسائی دیتی ہے۔ شاہ صاحب نے اس کتاب کو چند حصوں میں تقسیم کردیا ہے۔ چند معتبر تخلیق کاروں اور ناقدین کی آراء کے بعد ادراکی تنقید کے جواز پر ” مباحث ” ناول کے لیے ادراکی نقدو نظر، افسانہ کے لیے ادراکی نقدونظر اور پھر شاعری کے لیے ادراکی نقدونظر پیش کیے ہیں۔ یوں ادب کی کسی صنف کےلیے تشنگی نہیں رہی۔ میں سمجھتی ہوں یہ کتاب فرحت عباس شاہ صاحب کے لیے ادراکی تنقید کے سفر کا آغاز ہے وہ اس سلسلے کو آگے ضرور بڑھائیں گے۔ تاکہ اس نظریے کا تسلسل اور مستند وجود قاٸم رہے۔
ناول میں ڈاکٹر انیس ناگی کے ناول ” چوہوں کی کہانی” کے بارے میں تفصیلی تبصرہ کرتے ہیں اس کی جزئیات کو نمایاں کرتے ہیں۔ مختلف ناول نگاروں کے اسلوب کے ساتھ موازنہ کرتے ہیں۔ لکھتے ہیں کہ
” ڈاکٹر انیس ناگی کے ناول ” دیوار کے پیچھے، میں اور وہ، زوال، ایک گرم موسم کی کہانی، ایک لمحہ سوچ کا، قلعہ، محاصرہ اور چوہوں کی کہانی ” ان میں سے کوئی بھی ناول اردو ادب کی کسی روایت سے منسلک نہیں ہے۔ اگرچہ انہوں نے مغربی ناول نگاری سے انسپائریشن ضرور لی ہے لیکن اس کے باوجود ان کے ناولوں کے ایک ایک جملے سے لے کر پلاٹ اور ٹریٹمنٹ تک ہر شے بڑی وضاحت اور قوت سے بتاتی ہےکہ وہ انیس ناگی ہے۔ "۱۰ ص ۷۸
پھر آگے بتاتے ہیں کہ ناول ضخیم نہیں لیکن گہری معنویت کا حامل ہے۔ ہمارے معاشرتی زوال کو ہماری ہی سائیکی کی وجہ دکھاتے ہیں۔ جگہ جگہ اپنی غلطی کا اعتراف اور تدارک کرتے ہیں۔
علی نواز شاہ کے ناول ” یہوہ ” پر روشنی ڈالتے ہیں۔
” یہ ناول دراصل انسانی تاریخ کی کہانی ہے۔ انسانی عقائد کے ارتقاء و زوال، علوم کی ماہیت، فکروفلسفہ کی منازل، تفہیم فطرت اور نظریات کے تصادم کی ایسی دستاویز ہے جسے انتہائی اختصار سے تحریر کی گئی تفصیل قرار دیا جاسکتا ہے۔ "۱۱.ص ۸۱
منصور آفاق کے ناول” آقاقافا” کے متعلق لکھتے ہیں۔
” لہٰذا یہ سمجھ میں آنا آسان ہے کہ ناول کا مرکزی کردار اپنے جن خیالات، احساسات، خواہشات یا جذبات کو کسی بھی وجہ سے اپنے لاشعور میں دفن کر چکا تھا وہ زندگی کے کسی حصے میں تخلیقی پیرہن اوڑھ کر ذہن کے نفسیاتی نظام کے زیر اثر تحت الشعور تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ ”
لکھتے ہیں کہ
” اس ناول کا ایک منفرد پہلو یہ ہے کہ اس کہانی کے دونوں حصوں میں ناول نگار اپنے نام سمیت مرکزی کردار کے طور پر موجود ہے۔ "۱۲… ص ۹۰
گلوبل ویلیج بنی دنیا کے مختلف نظاموں کو زیر قلم لاتا یہ ناول شاہ صاحب نے پوری طرح پرکھ ڈالا ہے۔ وہ اسے صرف اردو ادب کے لیے ہی نہیں بلکہ دوسرے ترقی یافتہ ممالک کے ادب کے لیے بھی بہترین اور مفید قرار دیتے ہیں۔ پھر وہ منصور آفاق کے ناول” علی روئی” جوکہ چینی ادب سے ماخوذ ہے۔ اس کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ ترجمہ اس خوش اسلوبی سے کیاگیا ہے کہ نیا ناول تیار ہوگیا ہے۔
اسد محمود خان کے ناول” پیاری حلیمہ” کو شامل تنقید کرتے ہیں۔ یہ محبت اور وفا کی کہانی ہے۔ اسد محمود خان کے شاعر ہونے کی وجہ سے اس ناول کو فرحت عباس شاہ ناول نگار کے اندرون کی داستان قرار دیتے ہیں۔ لکھتے ہیں کہ
” ناول کی زبان خالصتاً تخلیقی ہے اور میرے پاس اسے نثری نظم کے قریب قریب قرار دینے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ ”
کامریڈ ریاظ احمد کے ناول ” شجر حیات ” کا تجزیہ کرتے ہوئے اسے لمحہ ء موجود کی کہانی کہتے ہیں۔ لکھتے ہیں کہ
” اس ناول کی زبان شاعرانہ اور اسلوب مفکرانہ ہے۔ جو اسے نہ صرف ایک معتبر انفرادیت بخشتا ہے بلکہ مصنف کی علمی، سائنسی، فلسفیانہ اور نظریاتی بصیرت سے استفادہ کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ "۱۲…. ص ۹۵
دوسروں کی تخلیقات کو اس طرح غیر جانبداری سے پرکھنا جب آپ خود ایک اعلیٰ مقام اور حکومتی اعزازات کے حامل ہوں ایک معجزے اور معرکے سے کم نہیں۔ شاہ صاحب کی بصیرت اور ادراکی تنقید سے حیران کن پہلو سامنے آئے ہیں اور چند مخصوص ادبی حلقوں میں فرحت عباس شاہ کی بصیرت و بصارت کا جتنا انکار کیا جاتا ہے وہ اتنا ہی ابھر کر شان سے سامنے آتے ہیں۔ ایک عاجز اور مگن انسان کی طرح وہ اپنے ہی سفر کی کھوج میں لگے رہتے ہیں۔ زندگی کے کونوں کھدروں تک رسائی پانا ان کا شوق ہے وہ دریافت کے سفر پر نکلے ہوئے ہیں۔ موسیقی، شاعری، تنقید اور ادیبوں، شاعروں کے حقوق کی جنگ لڑنا انہوں نے اپنا مشن بنا لیا ہے۔ جس میں ان کی نیت صاف اور ارادے شفاف ہیں تو کامیابی ضرور قدم چومے گی۔ ایسے لوگ صدیوں یاد رکھے جاتے ہیں، جس میں روشن پہلو ان کی ذات کا مزاحمتی آہنگ ہوتا ہے۔ وہ لکیر کے فقیر نہیں ہیں۔ اپنی الگ آوازاور فکر رکھتے ہیں جس سے اکثر لوگوں کا اختلاف یقینی ہوجاتا ہے۔
غنی خان کے ناول ” کرمے کی سرائے” کو ادب میں تازہ ہوا کا جھونکا قرار دیتے ہیں۔ لکھتے ہیں کہ
” ناول کو شخصیت کے اسی بنیادی اصول کے گرد بُنا گیا ہے کہ کس طرح اردگرد موجود افراد کی طرف سے دی جانے والی ری انفورسمینٹ بچے کے نفسیاتی خصائص وضع کرتی ہے۔ جو عمر بھر اسے اپنے مرتب شدہ ڈیزائن پر چلاتی ہے۔ ”
اس کے بعد افسانے کی دنیا میں قدم رکھتے ہیں۔ اظہار اللہ اظہار کے افسانوں کا تجزیہ کرتے ہوئے یہ واضح کردیتے ہیں کہ ادب کو جمود نہیں ہے۔ ارتقاء پوری شان سے ہورہا ہے ورنہ ہمارے نقاد مسلسل یہی خبر دیتے ہیں کہ اب کچھ بھی معیاری نہیں لکھا جارہا۔
” آخری افسانہ ” اظہار اللہ اظہار کا افسانوی مجموعہ ہے جس کے محاسن پر تفصیلی تبصرہ ہے۔ لکھتے ہیں۔
” اب تک میں نے ان کے تین افسانے پڑھے ہیں جن میں عموماً دو کردار سامنے آتے ہیں لیکن ان کے درمیان ہونے والا مکالمہ لاکھوں دلوں میں پڑی گرہوں کو کھولتا چلا جاتا ہے۔ ”
اظہر جاوید کے افسانوں جن کے مترجم حنیف باوا ہیں۔ وہ تخلیق جیسے شاندار ادبی جریدے کے مدیر رہے ہیں۔ جو ان کی خاص پہچان ہے جسے اب ان کا بیٹا جاری و ساری رکھے ہوئے ہے۔
لکھتے ہیں۔ کہ
” اظہر جاوید کی کہانیوں کا مطالعہ میرے لیے خوشگوار رہا۔ کہ ان میں ہمارے عہد کے بیشتر کہانی میکرز کی طرح تصنع اور کہانی گھڑنے کی کوشش کی بجائے خودرو پودوں کی طرح اگتی کہانیاں کسی ماہر شاخ تراش کے ہاتھوں سجتی بنتی منظر سے منظر جوڑتی چلی جاتی ہیں اور اجتماعی سماجی ادراک کی کنجی سے ان کے دروازے کھولنا قطعاً مشکل نہیں رہتا۔ ” ۔ ۱۳..ص ۱۰۶
اس کے بعد وہ شاعری کا معطر دریچہ وا کرکے بیٹھے اور ادراک کے پھول بکھیرتے چلے گئے ہیں۔
یہ حصہ منیر نیازی، ن م راشد، مجید امجد، میرا جی، اختر حسین جعفری، شفیق احمد، فیصل زمان چشتی، زین عباس، راغب تحسین، ممتاز اطہر، ڈاکٹر خالدہ انور، خالد احمد، ڈاکٹر شاہد اشرف، اعجاز رضوی، عابد حسین عابد، منظر حسین اختر، جون ایلیا، صابر ظفر اور جمیل الرحمٰن۔ پر مبنی ہے۔ میرے حساب سے کچھ معتبر اور خالص شعراء کے نام شامل نہیں ہیں۔ شاید وہ ان ناموں کو اگلے سلسلے کا حصہ بنائیں کیونکہ یہ تمام شعراء حضرات میرے عہد کے ہیں۔ میں ان سب کو سنتی اور ان کے شخصی اوصاف سے پوری طرح واقف ہوں۔ تو میں شاہ صاحب کے گہرے مشاہدے اور تجزیے کی صلاحیت کو خراجِ تحسین پیش کرتی ہوں کہ انہوں نے تمام شخصیات کی خوبیوں، خامیوں، انداز بیاں اور جن کے بارے میں کچھ بڑھا چڑھا کر پیش کیاگیا تھا ان سے ملمعے اتار پھینکے ہیں۔
بہترین طریقے سے اور انتہائی صبروتحمل کے ساتھ شائستہ لب و لہجے میں ادراکی تنقید کے مراحل کو بخوبی طے کیا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو اس کتاب کا تجزیہ کرتے ہوئے میں خود تشنگی محسوس کررہی ہوں میں شاعری والے حصے کے محاسن پر بھی بات کرنا چاہتی ہوں جو شاہ صاحب نے منیر نیازی کی بےنیازیاں اور شاعری کی شان بیان کی۔ جو انہوں نے ن م راشد کی نظموں کے حصے لے کر تجزیے کیے، جو اختر حسین جعفری کی اعلیٰ نظم نگاری کو خراج ِ تحسین پیش کیا۔ جو راغب تحسین اور اعجاز رضوی جیسے ہمہ جہت شاعروں کو نظر انداز کیے جانے کا المیہ بیان کیا۔ جو عابد حسین عابد کی شاعری کے رنگ و آہنگ بیان کیے۔ جو شاہ صاحب نے جون ایلیا کے بارے میں لکھا جسے سوشل میڈیا پر بالکل مختلف بیانیہ بناکر اڑایا گیا تھا۔ خالد احمد کے شاعروں میں گھرے رہنے کے باوجود منفرد شعر کہنے کا اعتراف کیا۔ جسطرح ممتاز اطہر،صابر ظفر منظر حسین اختر،ڈاکٹر شاہد اشرف،فیصل زمان چشتی اور ڈاکٹر خالدہ انور کے شعری اور شخصی اوصاف پر تفصیلات فراہم کی ہیں۔ وہ یقینی طور پر ادراکی تنقید کا کمال ہے۔ کوئی ساختیاتی، جدیدیاتی یا مابعدالطبیعیاتی تنقید ان شخصیات کو شاید کبھی بھی قابل اعتناء نہ سمجھے کیونکہ یہ سب شفق کے وہ رنگ ہیں جو نئی صبحوں کی نوید دیتے ہیں جبکہ تنقید کو نئی صبحوں کی روشنی سے ہمیشہ ہی فاصلے پر رکھا گیا ہے۔ میری گہری دلچسپی اور دلجمعی فرحت عباس شاہ صاحب سے اس ادراکی تنقید کے سلسے کو جاری رکھنے کی گزارش کرتی ہے۔ ربِ ذی وقار ان کی عزت اور مرتبہ بلند رکھے اور نقطہء نظر ایسے ہی شفاف رکھے۔ آمین۔
حوالہ جات
۱۔ ڈاکٹر سید عبداللہ، ولی سے اقبال تک سنگ میل پبلی کیشنز لاہور، ۲۰۱۷ءص ۲۲
۲۔ڈاکٹر عبادت بریلوی، غزل اور مطالعہ غزل، انجمن ترقی اردو کراچی، ۱۹۹۷ءص ۷
۳.فرحت عباس شاہ، اردو کا ادراکی تنقیدی دبستان، رنگ ادب پبلی کیشنز کراچی، ۲۰۲۳,
۴۔اسد محمود خان،مضمون مشمولہ،ایضاً
۵۔ایضاً
۶۔ ایضاً
۷۔ ایضاً
۸۔ ایضاً۔۔
۹۔ سلیم اختر، تنقیدی دبستان، سنگ میل، ۱۹۹۷ء
۱۰ ۔ فرحت عباس شاہ،اردو ادراکی تنقید ، رنگ ادب پبلی کیشنز کراچی، ص ۱۰
۱۱۔ ایضا، ص۸۱
۱۲ ۔ ایضاً، ص ۹۰,۹۵
۱۳ ۔ ص ۱۰۶
فرحت عباس شاہ کا اردو کا ادراکی تنقیدی دبستان : ثمینہ سید
۱۳ ۔ ص ۱۰۶
Felix Meyer
اگست 15, 2024I like the comprehensive information you provide in your blog. The topic is kinda complex but I’d have to say you nailed it! Look into my page Webemail24 for content about Social Media Marketing.