:Abstract
The popular statement of Urdu criticism recognize Shams-ur-Rahman Farooqi as modernist , formalist and stylistic critic.At the same time , Farooqi has taken full advantage of postmodernism in his paractical criticism .The point is that they have included post structural , interpretive , new-historical , reade responce critique , and post – colonial critique in theoretical and practical critique.This artical highlight their post-colonial thinking.This artical reviews his five post-colonial articales.Farooqi has presented post-colonial critic of colonial poetics,Ghalib,Sir sayad and Akbar Allahabadi . So this research paper has proves Farooqi to be a post-colonia critic
شمس الرحمن فاروقی عہد حاضر کے ممتاز اور رجحان ساز نقاد ہیں جنھوں نے اپنی تنقیدی بصیرت اور تنقیدی شعور سے اردو تنقید کو وقار بخشاہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ جب اردو تنقید کا میدان ایک عرصہ تک کسی مسیحا سے خالی تھا، اس میدان کو پُر کرنے کے لیے فاروقی نے قلم سنبھالا اور اردو تنقید کو بام عروج تک پہنچادیا۔ فاروقی کی پہچان صرف نقاد تک محدود نہیں بلکہ وہ کامیاب شاعر، ناول نگار افسانہ نگار ہیں۔ ادب کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جس میں فاروقی کی خدمات نہ ہوں۔ لسانیات ہو یا زبان، لغت نویسی ہو یا علم عروض، علم بیان ہو یا علم بدیع، تراجم ہوں یا انتخاب و مرتب کرنے کا سلسلہ، غرض ادب کے ہر حصے میںآپ کی خدمات لائق تحسین ہیں۔میر ؔ پر ان کا کام اردو میر فہمی میں ہی نہیں بلکہ اردو تنقید کا سرمایہ ہے۔فاروقی نے شرح میر کے باب میں ’’تعبیریات و تفہیمیات‘‘ سے بھر پور فائدہ اٹھایا ہے۔انھوں نے شعریات میر کی تشریح نہیں بلکہ تعبیر پیش کی ہے۔ فاروقی صرف اردو تک ہی محدود نہیں بلکہ انگریزی میں بھی بطور مصنف، مترجم اور ایڈیٹر آپ کی کتابیں آ چکی ہیں۔ داستان، ناول اور افسانہ کی نظری تنقید سے لے کر عملی تنقید تک آپ کی تحریریں حوالے کے طور پر پیش کی جاتی ہیں۔ بطور شارح آپ کی پہچان مسلم ہے۔میر ،غالب اور منٹو پر بنیادی نوعیت کا کام کیا ہے۔ اردو میں جدیدیت کے علم بردارہونے کا اعزاز بھی آپ کو حاصل ہے۔ موقعر ماہانہ رسالہـــ ’’شب خون‘‘ کے بانی مدیر رہے ہیں۔ ان کی ہرتحریر کسی سوال کو جنم دیتی ہے یا کسی رائے کی تردید کرتی ہے، کسی مسئلہ کو بیان کرتی ہے تو کسی بحث میں الجھ کر اس کا تجزیاتی مطالعہ پیش کرتی ہے۔ ان کی تنقید کا نمایاں پہلو تردید، دعوٰی، تشریح، تجزیہ اور نتیجہ ہے۔ تنقید کے اس عمل میں نتائج برآمد کر کے چھوڑنا ان کا بنیادی امتیاز ہے۔ وہ جہاں بحثیت نقاد مختلف نظری و عملی جہتوں میں نمایاں ہیں، وہاں بطور مابعد نو آبادیاتی نقاد اردو میں اولیت کے حامل بھی ہیں ۔انھوں نے مابعدنوآبادیاتی تنقید کی عملی صورتیں اردو تنقید کے دامن گیر کیں۔
ہمارے مطالعہ میں فاروقی کے پانچ مضمون شامل ہیں۔جن کے تجزیہ کے بعد ان کی تنقید کا مابعد نوآبادیاتی دائرہ کار واضح کیا جائے گا۔ پہلا مضمون ’’نو آبادیاتی ذہن اور تہذیبی بحران‘‘ ہے۔ یہ مضمون ان کی کتاب ’’غالب کے چند پہلو‘‘ میں شامل ہے ۔جو پہلی بار ۲۰۰۱ء میں انجمن ترقی اردو کراچی سے شائع ہوئی۔ اس مضمون میں فاروقی نے غالب کی انفرادیت قائم کرنے کے لیے چند اصول بنائے اور پھر ان اصولوں کی مدد سے غالب کو ان کے معاصرین اور سابقہ مشرقی شعریات کی روایت کو مدنظر رکھ کر انفرادیت عطا کی۔ عہد غالب اور ماقبل عہدغالب کی تہذیبی صورت حال میں خط امتیاز کھینچا۔ غالب نئی تہذیب کی آمد سے ذہنی بحران کا شکار ہوئے۔ نئی تہذیبی بحران کے پیش نظر غالب کو فاروقی نے تہذیبی بحران کا شاعر قرار دیا۔ مضمون میں غالب اور میر میں ذہنی آب و ہوا اور داخلی جغرافیہ کی بنیاد پر فرق قائم کیا۔ دعوٰی، دلیل اور تجزیہ کے بعد غالب کی شاعری کی معنویت، انفرادیت اور قدروقیمت متعین کی۔ اور مزید غالب کی شاعری معنویت سے آشکار ہونے کے لیے سفارشات بھی کیں۔
فاروقی نے عہد غالب اور ماقبل عہد غالب میں یوں امتیاز پیدا کیا ہے۔
ماقبل عہد غالب
1: میر کے عہد میں غیر ملک، غیر زبان اور غیر تہذیب کی اہمیت نہیں تھی۔
2 : اس زمانے میں لوگوں کو یقین تھا کہ وہ جن نظریات و تصورات کے قائل ہیں وہ صحیح اور کافی ہیں۔
3: اس عہد میں تمام مشرقی تہذیبی اقدار قوت اور سچائی کی حامل تھیں۔
عہد غالب
1:غالب کے عہد میں ان کی اہمیت تھی۔
2 : غالب کے عہد میں مشرقی تہذیبی اقدار پر مغربی تہذیبی یلغار پڑی۔ نتیجتاً مشرقی نظریات اور تصورات کے بارے میں شک پیدا ہو گیا۔ ہر مشرقی قدر پر سوالیہ نشان اٹھ گیا۔
3: غالب کے عہد میں ان کی سچائی اور قوت مشکوک نظر آنے لگی۔ مشرقی اقدار کی قوت پر سوالیہ نشان لگ گیا کہ وہ انسان کو کائنات میں قائم رہنے اور کائنات کے موجودات و امکانات کی وجہ بیان کرنے کی سعی میں مدد دسے سکتی ہیں یا نہیں؟
فاروقی نے یہ فرق بیان کر کے بتایا کہ اس سے ایک خاص طرح کا تہذیبی بحران پیدا ہوا۔جو غالب کی شاعری میں جابجا نظر آتا ہے ۔ اسی فرق کی بنا پر فاروقی نے غالب کو ’’تہذیبی بحران‘‘ کا شاعر قرار دیا ہے۔ غالب کا معاصرین سے تقابلی جائزہ لیتے ہوئے ان کا کہنا ہے کی مغربی تہذیب نے مشرقی تہذیب پر یلغار کرتے ہوئے جن مشرقی اقدار کے متعلق شکوک و شبہات پیدا کیے تھے انھیں غالب نے محسوس کیا اورشعر کیا۔ لیکن غالب کے معاصرین ذوق، مومن، میرانیس اور اصغر علی خان نسیم (فاروقی نے نسیم کو درجہ دوم کا شاعر کہہ کر خطاب کیا ہے) اس تہذیبی بحران کو محسوس کرنے سے معذور رہے۔ یہی وجہ ہے کہ غالب اپنے معاصرین میں ممتاز ہیں۔ باالفاظ دیگر غالب نے روایات اور عہد جدید کو (مغربی تہذیبی یلغار کے باعث) مد نظر رکھتے ہوئے یہ محسوس کیا کہ اشیا جیسی نظر آتی ہیں وہ ان کی اصل صورت نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے جس کے باعث انھوں نے شاعری میں استفہامیہ لہجہ اپنایااور کائنات کے اسرار و رموز پر سوالیہ نشان ثبت کیا۔ فاروقی نے شعریات غالب کی تفہیم کے لیے خالص مغربی شعریات کو بھی کارگر قرار دیا ہے اس کے ساتھ وہ مشرقی شعریات کی کسوٹی کو بھی ناگزیر سمجھتے ہیں،اقتباس ملاحظہ ہو:
’’ان(غالب) کا ذہن جدید ذہن کے رجحانات کو باربار Anticipate کرتا ہے اور اگرچہ وہ
وہ کائنات کو مشرقی کلاسیکی نظر سے دیکھتے ہیں لیکن جگہ جگہ اس کے بارے میں استفہام بھی کرتے
ہیںاور مروجہ اقدار کو الٹ پلٹ کر دیکھنے کی بھی سعی کرتے ہیں۔لیکن یہ بات ہمیشہ ملحوظ خاطر رکھنا
چاہیے کی مشرقی شعریات،مشرقی تہذیب اور مشرقی نظریہ کائنات World View سے پوری
ہمدردی اور واقفیت کے بغیر غالب کا مطالعی ممکن نہیں ہو سکتا۔‘‘(۱)
یہ غالب کی عظمت ہے کہ وہ مغربی اور مشرقی دونوں شعریات پہ سمجھا جا سکتا ہے۔کسی ایک شعریات کے تناظر میں مطالعہ غالب ،تفہیم غالب کی گمراہی ثابت ہو سکتا ہے۔آئندہ غالب تنقید کے ایک بڑے مغالطے کو فاروقی سلجھا دیا ہے۔
استعماریت نے جس انداز سے، جن حکمت عملیوں اور سازشوں سے یلغار کی تھی اس میں ترقی اور جدت بظاہر نظر آ رہی تھی لیکن پس پردہ ان مضمرات کا جاننا بھی بصیرت تھی جسے بعد میں اکبر نے نشان زد کیا۔فاروقی کے نزدیک میر سے زیادہ غالب کے ہاں اسفہامیہ لہجہ ہے۔ اور اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ مغربی تہذیب نے مشرقی تہذیبی اقدار کے بارے میں شکوک پیدا کر کے ان کو کم تر کرنے کی کوشش کی۔فاروقی نے اسی تہذیبی شکست و ریخت کے تناظر میں اپنا مقالہ ’’ اکبر الہ آبادی: نئی تہذیبی سیاست اور بدلتے ہوئے اقدار‘‘ لکھا۔ یہ مقالہ۱۴ واں ذاکر حسین خطبہ کے طور پر ۱۲فروری ۲۰۰۲ء میںذاکر حسین کالج (دہلی یونیورسٹی) میں پیش کیا گیا۔ ۳۶ صفحات پر مشتمل یہ طویل مقالہ اپنے اندر عنوان کے تناظر میںکئی جہات لیے ہوئے ہے۔ ابتدائی چند باتیں جن میں اکبر کی سوانح شامل ہے، کے بعد فاروقی نے اکبر کی شاعری کے بارے میں عمومی رائے (مفروضہ: یعنی اکبر طنزیہ و مزاحیہ شاعری کا شاعر ہے جو وقت کے ساتھ اپنی معنویت کھو چکی ہے۔ اس میں آفاقی عنصر شامل نہیں اس لیے آج اس کی اہمیت اور قدروقیمت نہیں) بیان کی۔ اپنا موقف (فرضیہ: یعنی اکبر صرف طنزیہ و مزاحیہ شاعر نہیں بلکہ اس نے نئی تہذیبی ترقی کی مخالفت کی، وہ ترقی جس نے نو آبادیاتی نظام قائم کرنے میں معاونت کی اور ہندوستانیوں میں اپنی تہذیبی اقدار سے بیگانگی پیدا کی) سامنے رکھا اور پھر اپنے موقف (فرضیہ) کو ثابت کر کے دکھایا۔فاروقی کے نزدیک اکبر کے بارے میں پائی جانے والی عمومی رائے کہ اس نے طنزیہ مزاحیہ شاعری کی جس کی کوئی خاص اہمیت نہیں اس لیے کہ ایسی شاعری وقت کے ساتھ حالات بدلنے سے اپنی معنویت سے ہاتھ دھوبیٹھتی، غلط ہے۔فاروقی نے جیسا کہ عنوان سے ظاہر ہے، اکبر کے افکار، نظریات اور سوچ و خیال کو تہذیب کے ساتھ منسلک کیا ہے۔ اور یہ دعوٰی کیا ہے کہ اکبر طنزیہ شاعری کے پس پردہ نئی تہذیب کی گمراہیوں سے آگاہ کر رہے ہیں۔ عمومی رائے میں اکبر ناقدین کو ترقی، سائنس، تعلیم اور روشن خیال طرز کی خصوصیات کے خلاف نظر آیا ہے۔ جبکہ فاروقی کا موقف اس کے بالکل برعکس ہے۔ فاروقی کے نزدیک اکبر کو نئی تہذیب (مغربی) سے فقط اس لیے الجھن تھی کہ نئی تہذیب نے دو کام کیے۔ اول مشرقی (ہندوستانی) تہذیب کو پامال کیا۔ دوم نو آبادیاتی صورت حال پیدا کرنے میں مدد کی۔اکبر یہ جانتے تھے کہ مغربی تہذیب اور نظامِ افکار کو دانشورانہ طور پر اختیار کرنا اور بات ہے اور غلامانہ یا خوشامدانہ رویے کے تحت اختیار کرنا اور بات ہے۔
مغربی تہذیب کے جملہ مظاہر اکبر کو محض خوش خیالی اور پر امیدی سے مزین محسوس ہوتے ہیں۔ اس سے فاروقی کا دعوی واضح ہو جاتا ہے کہ وہ اکبر کو قدامت پسند اور ترقی کے خلاف نہیں بلکہ نئی تہذیب کے جملہ ترقیاتی مظاہر کے خلاف سمجھتے ہیں، جنھوں نے ایک ہندوستانی باشندے کو اپنی تہذیبی شناخت سے دور کیا تو دوسری طرف نو آبادیاتی نظام کو تقویت بخشی۔ یہ بات ٹھیک ہے کہ اکبر نے کھل کر سیاست میں قدم نہیں رکھا لیکن فاروقی نے بتایا ہے کہ وہ انگریز، انگریزی راج ، مغربی تہذیب اور ان کے معاونین پر کھلے الفاظ میں نکتہ چینی میں کبھی پیچھے نہ رہے۔ اکبر جانتے تھے کہ انگریزوں کی کھل کر مخالفت بے اثر بھی ہے اور نقصان دہ بھی۔
فاروقی نے اپنا بنیادی موقف بیان کرنے کے بعد اس کو ثابت کرنے کے لیے اکبر کی شاعری سے حوالے پیش کیے ہیں۔ ہم یہاں شعری حوالے نقل کرنے کی بجائے اکبر کی بصیرت کی مختلف جہتیں بیان کر دیتے ہیں جو فاروقی نے اکبر کی معنویت میں اپنے مقالہ میں پیش کیں۔
٭ اکبر نے نو آباد کار قوم کی تہذیب اور اس کی سیاست، اس کے نظم حکومت اور اس کے ضوابط کو متحد قرار دیا۔(۲)
٭ مغربی سامراج عالم گیریت کے پس پردہ تیسری دنیا کی تہذیب کو محکوم بنانے کے درپے ہے۔ مغرب کی تمنا ہے کہ تیسری دنیا کے لوگ اس کے تہذیبی اقدارواطوار کو تاحدامکان قبول کرلیں۔ تہذیبی علائم (تہذیبی ترقی، سائنسی علوم و ٹیکنالوجی کے مظاہر) کی سیاسی معنویت کو اکبر نے سب سے پہلے سمجھا۔(۳)
٭ اکبر کی نگاہ میں برطانوی قواعد و ضوابط کا وجود ایک طرح کا تہذیبی حملہ ہے کیوں کہ اس کے باعث ہندوستانی اپنا طرز حیات بدلنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔(۴)
٭ اکبر کا احتجاج پائپ کے پانی ، چھاپہ خانہ، اخبار اور ریل گاڑی جیسی منفعت بخش ایجادات سے نہیں بلکہ ان کی نظر میں یہ چیزیں غلامی کی علائم ہیں۔ یہ علائم ہندوستانی طرز معاشرت اور تہذیب کو تباہ کرنے کا کام دیتی ہیں۔(۵)
٭ اکبر نے پائپ کے پانی کی مخالفت اس لیے کی کہ پہلے پانی قدرتی وسیلہ تھا، اب انسانی مصنوعات کے ضمرے میں آگیا ہے۔ فاروقی نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اب پانی آپ کی مرضی کے مطابق نہیں بلکہ آپ پانی کی مرضی کے تابع ہو گئے ہیں۔(۶)
٭ اکبر ٹائپ کے حرف کے خلاف طنزیہ بولے۔ فاروقی نے وضاحت پیش کی کہ پہلے کاتب سے غلطیاں ہوتی اور مصنف اپنی مرضی کے مطابق مطلوبہ معیار پر کتاب تیار کرواتے لیکن اب چھاپہ خانے ہیں۔ کتاب مصنف کی مرضی کے مطابق نہیں چھپتی۔ اس میں اغلاط اور معیار میں کمی واقع ہوتی ہے۔
٭ فاروقی نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا، اکبر دراصل اس کثیر پیداواری تہذیب کی شکایت کر رہے ہیں جس نے کثرت اور عجلت کی خاطر معیارات کو پست کر دیا ہے۔
٭ اکبر کو فوٹو گرافی اور گراموفون پسند نہیں تھے۔ وجہ یہ ہے کہ دونو ںشخص اور صفات کو گم کر دیتے ہیں۔
٭ ٹیلی فون سے اس لیے چِڑ تھی کہ اس میں لا شخصی پن ہے اور انکار کرنا آسان ہو جاتا ہے چوں کہ مخاطب سامنے نظر تو آتا نہیں۔
٭ اکبر کی نگاہ میں اخبار بھی تہذیبی حملہ ہے۔ اخبار تجارت کے لیے ہے، غلط اطلاعات دیتا ہے۔پھر یہ کہ ہر ہندوستانی اس میں اپنی تحریر چھپنے کو سعادت سمجھتا ہے۔ جو اکبر کی نظر میں قومی وقار کے بر عکس ہے۔ اکبر اسے مادہ پرستانہ اور دنیادارانہ سمجھتے ہیں۔ اس کا اولین مقصد علم یا اطلاع دینا نہیں بلکہ تجارت اور انگریزی حکومت کے انتظامی اور سیاسی مفادات و مقاصد کو فروغ دینا ہے۔
٭ اکبر نے ریل گاڑی کو اس لیے طنز کا نشانہ بنایا ، وہ نو آبادیوں کے اقتصادی استحصال کی آلہ کار اور نظام حکومت میں ایک طاقت و سیاسی بیان کے طور پر موثر ایجاد ہے۔
فاروقی نے اس کی وضاحت یوں کی، وہ (اکبر) اخبار، ریل گاڑی کے خلاف نہ تھے نہ وہ ان چیزوں (محکموں) کے خلاف تھے جنھیں انگریزی حکومت ’’عوامی بہبود‘‘ کے کام کہتی تھی۔ بلکہ اکبر کو یہ تشویش تھی کہ یہ محکمے ہمارے (ہندوستانی) ورثے کا استحصال کر رہے ہیں اور انگریزوں کی سیاسی اور اقتصادی برتری کو قائم کرنے، مستحکم کرنے اور پھیلانے میں معاون ہیں۔ فاروقی نے اکبر اور اقبال کو اولین اور سب سے بڑے پس نو آبادیاتی ادیب قرار دیا ہے۔ کیوں کہ دونوں برطانوی طرز فکروحیات کو بخوبی جاننے کے باوجود اس سے مرعوب نہ تھے۔ ان کا تقابلی جائزہ لیتے ہوئے فاروقی نے اکبر کو اقبال سے بڑا انگریز دشمن قرار دیا ہے۔
فاروقی نے اکبر کے بارے میں اس مقالہ میں عمومی رائے (مفروضہ) کی تردید، پھر دعوٰی (فرضیہ ) کے دلائل دینے کے بعد ثابت کیا کہ اکبر ترقی اور روشن خیالی کے خلاف نہ تھے بلکہ وہ ان جملہ مغربی ترقی کے مظاہر کے خلاف تھے جنھوں نے ہندوستانی تہذیب اور مزاج کو بدلنے اور ختم کرنے کی ہر ممکنہ کوشش کی، یوں یہ ترقی ہندوستانی تہذیب، نظام اقدار، طرز فکروحیات اور ہندوستانی مزاج کے خلاف تھی اس لیے اکبر اسے نہ صرف طنز کا نشانہ بناتے ہیں بلکہ اس کو ناپسند کرتے ہوئے اپنی شاعری میں نفرت کا اظہار کرتے ہیں۔
ظاہر ہے فاروقی کے دعو ی اور اپنے دعوٰی کی دلیل کے بعد ہم اس کی بات کے قائل ہو جاتے ہیں لیکن یہ سوال ضرور ذہن میں آتا ہے ، اگر مغربی تہذیب سے ہم (ہندوستانی) روشناس نہ ہوتے تو کتنا عرصہ لگتا کہ ہندوستانی اقوام یورپی ترقی کی ہم سری کا دعوٰی کر سکتیں یا یورپ جتنی ترقی کر لیتیں۔ کیا جس قدر یورپ نے دو صدیوں میں ترقی کی اسی طرح ہندوستان تین صدیوں میں ترقی کر سکتا؟ اس کا جواب کوئی صاحب نظر ہی دے سکتا ہے۔
سید احمد خان کے بارے میں دو طرح کے خیالات عمومی سطح پر پائے جاتے ہیں۔ اول انہوں نے ہر طرح سے انگریز، انگریزی تہذیب، انگریزی تعلیم کا ساتھ دیا جو قومی وقار کے خلاف ہے۔ دوم انہوں نے عقلیت (Rationalion ) کی بنیاد پر چند اسلامی عقائد جو سراسر ایمانی بنیاد پر تھے ، سے انکار کیا۔فاروقی نے اس ضمن میں اپنے لیکچر ’’تحقیق آثار سے سماجی انقلاب پسندی تک سید احمد خان اور نوآبادیاتی نظام کا تجربہ) میں چند گزارشات پیش کیں۔ یہ لیکچر سر سید میموریل کے تحت ۲۰۰۶ء میں مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں سالانہ سر سید یادگاری خطبہ کے طور پر دیا گیا۔ اپنے لیکچر کی ابتدا میں فاروقی نے سید احمد خان اور اپنے ذاتی خاندان میں پائے جانے والے مراسم کی طرف اشارہ کیا۔ فاروقی نے اس لیکچر میں سید احمد خان اور نوآبادیاتی نظام کے حوالے سے پہلا دعوٰی یہ کیا، سر سید اور ان کے بیٹے سید محمود نے انگریزوں کی خوشامد، فرمانبرداری کرنے کے بجائے خود کو انگریزوں کے اور انگریزوں کو خود کے مساوی اور برابر تسلیم کرنے کا رویہ اختیار کیا۔ اپنے اس دعوی کی دو دلیلیں پیش کیں۔ اول جب سید احمد خان نے ۱۸۶۷ء میں آگرہ میں سجے دربار سے علیحدگی اختیار کی، اس لیے کہ وہاں ہندوستانیوں کو انگریزوں کے مقابلے میں کمتر درجے کی نشستیں فراہم کی گئی تھیں۔حالانکہ اس دربار میں سید احمد خان کو تمغہ عطا کیا جانا تھا۔ دوم سید محمود نے ۱۸۶۲ء میں بنارس میں تقریب کے دوران بنارس کے کمشنر الکزنڈر شیکسپئیر کو جامِ تبریک کے جواب میں اس خواہش کا اظہار کیا کہ انگلستان، ہندوستان سے سماجی حیثیت برقرار کرے، اس کے دائمی استحکام کی ضمانت لے اور انگریزوں اور ہندوستانیوں میں حکمران اور فاتح کی بجائے دوست اور ہم وطن کا رشتہ قائم کرے۔
فاروقی نے اپنے اس لیکچر میں دوسری بات یہ کی ہے، سید احمد خان نے ہندوستانی مسلمانوں کو اپنی حیثیت اور قدروقیمت کا احساس دلایا اور خود اعتمادی کی امید دلائی جو ۱۸۵۷ء میں ختم ہو گئی تھی۔ ہندوستانی اشخاص کی قدروقیمت اور خودداری کی عمدہ مثال اس سے بڑھ کر کیا ہو سکتی ہے کہ سید محمود کو ۱۸۹۳ء میں جج کے عہدہ سے مستعفی ہونا پڑا فقط اس لیے کہ ان کا بطور جج پروٹوکول ویسا نہیں تھاجیسا ان کے ہم منصب انگریزوں کے حصے میں آتا۔ فاروقی نے اسے عزت نفس، خودداری اور عظمتِ ادعا اور مغرور قوم کے سامنے مرعوبیت سے انکار کی عمدہ مثال بنا کر پیش کیا ہے۔ راقم کی رائے میں فاضل نقاد جانبدار ہو کر رہ گیا ہے۔ اس لیے کہ وہ جس جگہ پر یہ خطبہ/لیکچر پیش کر رہا ہے وہ سید احمد خان کا ادارہ ہے۔ فاروقی نے اسی مضمون میں خود کہا ہے کہ سید محمود نے یہ مطالبہ کیاکہ اسے انگریزوں جیسا پروٹوکول دیا جائے اس لیے کہ وہ (سید محمود) نام اور ولدیت کے علاوہ پوری طرح انگریز ہیں لہٰذا ان کے ساتھ برطانوی ججوں جیسا سلوک کیا جائے۔کیا یہ سید محمود کی عزت نفس کی دلالت ہے؟ کیا یہی خودداری ہے؟ کیا مغرور قوم کے سامنے یہ مرعوبیت نہیں؟جو بندہ اپنی ہندوستانیت سے بے گانہ ہو کر انگریزیت کا دعوی کرتا ہے اس کی عزت نفس، خودداری اور مغرور قوم کے سامنے مرعوبیت سے انکار کس کام کا؟
مضمون کے بقیہ حصے میں فاروقی نے سید احمد خان کا تصور ادب (نثرونظم) سید احمد خان کی ادبی خدمات (تاریخی تصانیف کے حوالے سے) سید احمد خان اور غالب کے تعلقات اور غالب کی تقریر جو آئین اکبری کے لیے لکھی گئی کا ترجمہ پیش کیا ہے(۷)۔ ان مذکورہ پیش کیے جانے والے خیالات میں نوآبادیاتی نظام کے متعلق وہ باتیں پوشیدہ ہیں وہ بعد میں فاروقی نے اپنے مضمون (نو آبادیاتی شعریات اور ہم)میں پیش کیں۔بحثیت مجموعی اس لیکچر/مضمون/مقالے میں فاروقی نے نوآبادیاتی نظام کے تجربہ سے متعلق کوئی غیر معمولی بات پیش نہیں کی۔
مابعد نوآبادیاتی تنقید کی عمدہ مثال فاروقی کا مضمون ’’نوآبادیاتی شعریات اور ہم‘‘ ہے۔ یہ مضمون دو جگہ شائع ہوا۔ اول فیکلٹی آف آرٹس علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے جرنل دانش شمارہ ۷) ۲۰۱۰ء۔۲۰۱۱ء) میں شائع ہوا۔ دوسری بار سہ ماہی ’’نئی کتاب‘‘ نئی دہلی کے شمارہ ۱۶ ( جنوری تا مارچ ۲۰۱۱ء ) میں شائع ہوا۔اس مضمون میں فاروقی نے جو بنیادی تھیسس اختیار کیا ہے اس کا اہم پہلو یہ ہے کہ نو آبادیاتی آنکھ سے کیا گیا مشرقی ادب کا مطالعہ یا مغربی نقطہ نظر سے مشرقی شعریات کو سمجھنے کی کوشش ،کس قدر مغالطہ آمیز رہی ہے۔یقینا اس کے فائدہ مند اثرات برآمد نہیں ہوئے۔ مضمون کی ابتدا میں ہی تین سوال اٹھائے گئے۔ ۱:کیا یہ سچ ہے؟
۲: کیا یہ انسانوں کی طرح کا ہے ؟
۳: کیا یہ با معنی ہے؟(۸)
یہ تینوں سوال تین زبانوں کی شعریات کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ پہلا سوال پس نو آبادیاتی ادبی تہذیبوں کا پیدا کردہ ہے۔ دوسرا سوال چینی شعریات سے علاقہ رکھتا ہے جبکہ تیسرا سوال کسی ادب پارے کے لیے عربی اور سنسکرت شعریات اٹھاتی ہیں۔ فاروقی نے ان تینوں سوالوں کی اصل اپنے پورے مضمون میں واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔
پہلے سوال کی روشنی میں فاروقی نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ اردو میں غزل پر کیے جانے والے سوال مثلاً اس میں جو معاملات بیان کیے گئے ہیں وہ حقیقی ہیں یا نہیں۔ شعر میں داخلیت ہے کہ نہیں، افسانے کے متعلق سوال کہ اس میں واقعیتی رنگ ہے کہ نہیں، قصیدے میں ممدوح سے جو چیزیں منسوب کی گئی ہیں وہ سچ ہیں یا جھوٹ؟ مثنوی کے متعلق یہ شک کہ اس میں کہاں تک سچ کی کار فرمائی ہے؟ مرثیہ میں کربلا اور اہل بیت سے جو چیزیں (صفات و آلات) منسوب ہیں یقینا ایسی ہیں جیسے مرثیہ گو نے بتائی ہیں یا نہیں؟ مرثیہ حقیقت پر کس طرح مبنی ہے! اگر حقیقت ثابت نہیں تو اسے تخلیقی فن پارہ کہنا کیوں کر ممکن ہو گا؟ سب سوال اردو ادبی تنقید اور ہماری (ہماری سے فاروقی کی مراد سنسکرت، عربی اورفارسی کی ادبی روایت اور شعریات ہے) ادبی تہذیب کے اٹھائے ہوئے نہیں بلکہ یہ نو آبادیاتی دور کے پیدا کردہ سوالات ہیں۔ فاروقی کے مطابق ان مذکورہ سوالوں کا ذمہ دار نوآبادیاتی نظام فکر ہے۔ ’’کیا یہ سچ ہے‘‘ والے سوال نے مشرقی سرمایہ ادب کو مشکوک ٹھہرا دیا۔ نہ صرف مشکوک بلکہ اسے بے کار قراردیا۔ مزید یہ کہ مشرقی سرمایہ ادب میں حقیقت یا سچ نہ ہونے کی وجہ سے اسے نیچر (فطرت) سے دور قرار دیا ۔ اور نیچر سے دورادب بے کار اور فضول ہے۔ یاد رہے نیچر کا تصور مغرب کا دیا ہوا تھا جس کے مطابق مشرقی سرمایہ ادب کو پرکھا گیا۔ انگریزوں نے مشرقی سرمایہ ادب پر الزام عائد کیا کہ اس میں فحش باتیں کثرت سے ہیں۔ انیسویں صدی میں خود انگریزوں کی حالت کیا تھی۔ فاروقی کی زبانی سنیں: ’’قتل، چوری، غارت گری، زنا بالجبر، نوزائیدہ بچوں کا قتل یا انھیں زمین دوز نالیوں میں زندہ بہا دیا جانا،، ہر طرح کی نشہ آور اشیا کا بے دھڑک استعمال اور تجارت، بھکاریوں اور چوروں کے منظم گروہ، ہیضہ اور دوسری مہلک بیماریاں، وہاں کیا نہیں تھا؟‘‘ فحش ادب کے الزام کا جواب یہ دیا کہ عہد وکٹوریہ کے انگلستان میں جتنا فحش ادب تخلیق ہوا اس کی مثال تاریخ دینے سے قاصر ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر مغربی اندازنقد ،مشرقی ادبیات کے لیے کس نے رائج کیا؟ اس کے ذمہ دار فاروقی کوسر سید، مولانہ محمد حسین آزادؔ ، مولانا حالیؔ، علامہ شبلی، ذکاء اللہ اور نذیر احمد کے ساتھ کلیم الدین احمد نظر آتے ہیں۔فاروقی کو اعتراض ہے کہ حالی سے فراقؔ تک نے مغربی دبائو کے تحت اس بات کو نظر انداز کر دیا کہ ہماری عشقیہ شاعری کسی عاشق کے کلام کے بجائے عاشق، عشق اور معشوق کے بارے میں کسی شاعر یا متن ساز کا کلام ہے۔ اور یہ موقف اختیار کیا، شاعر کے ذاتی کوائف سے اس کے کلام کا تعلق نہیں۔اردو میں یہ رجحان بڑی تیزی سے پھیلا کہ ادب کو اپنے زمانے ، عہد، دور کا ترجمان/ عکاس ہونا چاہیے۔ جو آس پاس معاشرے میں ہو رہا ہے اسے ادبی فن پاروں میں پیش کیا جانا چاہیے، وہ جنسیت بھی کیوں نہ ہو۔ فاروقی کے مطابق ادبی فن پارے کو اپنے زمانے کا عکاس ہونا چاہیے کا تصور نئی مغربی شعریات کا مرہون منت ہے۔ اس لیے کہ ادب زمانے کا عکاس ہو کر جھوٹ سے پاک ہو جاتا ہے۔
فاروقی نے تین سوال اٹھائے جن میں سے ایک کا ذکر یہاں کیا جاتا ہے۔
٭ اگر شاعری حقیقت پر مبنی ہوتی ہے تو پھر اس میں تخیل کا کیا مقام ہے؟
اس سوال پر بحث کرتے ہوئے فاروقی کا کہنا ہے کہ مغربی فلسفہ اور شعریات میں استعارہ کو اہمیت نہیں دی جاتی جس کے باعث آزادؔ، حالیؔ، امداد امام اثر اور علامہ شبلی نے استعارے کی مخالفت کی اور استعارہ جھوٹ سمجھ لیا گیا۔ فاروقی کے نزدیک یہ تصور بھی انگریزوں کا ہے کہ شاعری تعلیم اور مسرت پہنچانے کا ذریعہ ہے۔ نتیجتاً ہندوستانیوں میں اپنے تہذیبی مظاہر اور علم و ادب سے نفرت اور حقارت کے جذبات پیدا ہوئے۔
فاروقی نے باریک بینی سے استعاری حکمت عملیوں کا ذکر کیا ہے جنہوں نے ادبی سطح پر ہندوستانیوں کو مغلوب کرنے کی کوشش کی۔ بعض کا تعلق براہ راست نفسیات سے ہے۔ مثلاً نو آبادیاتی حاکم بعض خصلتیں مقامی باشندے میں پیدا کر دیتا ہے جس کے مطابق مقامی باشندہ خود سے نفرت کرنا، استعمارکار کی عادات کو اختیار کرنے کی کوشش اور کسی دوسرے کو استعمار کی عادات اختیار کرنے سے روکنے کی کوشش کرنا شروع کر دیتا ہے۔استعمارزدہ کی ذہن سازی ایسی کی جاتی ہے کہ وہ اپنی تہذیب اور اقدار کو استعمار کار کے مقابلے میں کم ترگردانتا ہے۔ فاروقی ،ایڈورڈ سعید کے حوالے سے بتاتے ہیں کہ نو آبادیاتی حاکم تین اصول قائم کرتا ہے۔ یعنی محکوم اقوام کے بارے میں ’’علم‘‘ اس لئے حاصل کرنا تا کہ اس ’’غرض‘‘ کو پورا کیا جائے جو ’’اقتدار‘‘ حاصل کرنے ، پھیلانے اور قائم کرنے کی ہے۔ اب ایک نظر فاروقی کے پہلے سوال پر ڈالیں۔ ’’کیا یہ سچ ہے؟‘‘ اس سوال کا نتیجہ فاروقی نے یہ نکالا کہ مغربی شعریات نے ہماری شاعری کو سچ، حقیقت اور تعلیم و اخلاق سے عاری قرار دیا۔حالانکہ ہونا یوں چاہیے تھا کہ مشرقی ادبیات کو مشرقی شعریات کے تناظر میں پرکھاجائے۔
دوسرا سوال ’’کیا یہ انسانوں جیسا ہے؟‘‘ چینی شعریات میں اٹھایا جاتا ہے۔
تیسرا سوال ’’کیا یہ با معنی ہے؟‘‘ عربی اور سنسکرت شعریات اور اس کے اثر سے فارسی اور اردو میں رائج ہوا۔ فاروقی صاحب کا کہنا ہے کہ نوآبادیاتی دبائو کے تحت یہ سوال اٹھایا گیا کہ ’’کیا یہ سچ ہے؟‘‘ مشرقی شعریات میں یہ سوال سرے سے غیر ضروری ہے کہ کسی فن پارے کی سچائی کے بارے میں چھان بین کی جائے۔ مشرقی شعریات (سنسکرت) کی رو سے کلام کے اثر کا جائزہ لیا جاتا ہے نہ کہ سچ اور حقیقت بیانی کا۔ اس لیے کہ سنسکرت شعریات میں بعض کلام کے معنی وہی ہوتے ہیں جو ظاہری سمجھ آتے ہیں اور بعض کلام کے معنی لغوی سے زیادہ طرز استعمال پر منحصر ہوتے ہیں لہذا اس اصول کے تحت سچ جھوٹ کا فرق خود بخود ختم ہو جاتا ہے۔
فاروقی نے اس تنقیدی مضمون میں اس تنقیدی نقطہ نظر کی طرف واضح اشارہ کیا ہے جس کے مطابق مشرقی شعریات کو جانچ کر اسے بے معنی قرار دیا گیا۔ مغربی انداز اپنانے کا نقصان یہ ہوا کہ ہمیںاپنا ادب، تاریخ ، ثقافت اور تہذیبی مظاہرہ مشکوک نظر آنے لگے۔ ارد و دانشوروں نے استعمار کار کی معاونت کی۔فاروقی نے مغربی تہذیب اور انداز اپنانے کی ذمہ داری سرسید اور ان کے رفقا پر ڈالی،اقتباس ملاحظہ ہو:
’’ہماری قدیم شعریات کو منسوخ کرنے اور مغربی شعریات کو رائج کرنے کی ساری ذمہ داری
سر سید پر ہے۔یہ صحیح ہے کہ سر سید ،علی گڑھ تحریک اور’’تہذیب الاخلاق‘‘ نے اس معاملے میں
نے اس معاملے میں بڑا کردار ادا کیا،لیکن سر سید کی باتیں جن لوگوں کے کانوں میں پڑیں وہ
ان باتوں کو سننے اوران پر عمل کرنے کے لئے پوری طرح تیار تھے،پھر،مولانا محمد حسین آزاد،
مولاناحالی،علامہ شبلی،نذیر احمد ان سب بڑے لوگوں نے بھی مغربی یعنی نو آبادیاتی حاکم کے
نظامِ افکار کو مقبول بنانے میں اہم کام کیا۔‘‘(۹)
مغربی تہذیبی یلغاراورادبی نظامِ تنقید کی قبولیت کے نتیجے میں مقامی تہذیب اور ادبی روایت سے بیگانگی وجود میں آئی۔ دوسری جانب استعمار کار کا رعب بڑھتا گیا۔ مقامی باشندہ نو آبادکار سے جس قدر مرعوب ہو گا، نوآبادکار کی طاقت میں اس قدر اضافہ ہوتا جائے گا۔فاروقی کا یہ مضمون سہ ماہی ’’نئی کتاب‘‘ کے شمارہ 16 ( جنوری تا مارچ ۲۰۱۱ء ) میں شائع ہوا۔ اس مضمون سے قبل ناصر عباس نیر کا مضمون ’’تذکروں کے نوآبادیاتی بیانیے‘‘ ماہنامہ ’’قومی زبان‘‘ کراچی ، جلد۸۱ ،شمارہ۹(ستمبر۲۰۰۹ء ) میں شائع ہو چکا تھا۔ ’’تذکروں کے نو آبادیاتی بیانیے ‘‘میں فاضل نقاد نے اس ساری بحث کو بڑے عالمانہ انداز میں بیان کیا ہے۔ تذکروں کی تنقیدی قدروقیمت کا تعین پہلی بار ’’گارساں دتاسی ‘‘ نے کیا۔ ناصر عباس نیر کے مطابق تذکروں کی تنقیدی اہمیت اور معیار کے بارے میں جو نکات دتاسی نے پیش کیے وہ نو آبادیاتی بیانیے پر مشتمل ہیں۔ اس لیے کہ اس نے مشرقی انداز نقد نہیں اپنایا۔ دتاسی کی رائے میں تذکروں میں
٭ معروفیت اور غیر جانب داری کی کمی
٭ آرائشی اسلوب اور عبارت آرائی
٭ ذوق سلیم کا اظہار
٭ شعرا کے حالات زندگی کا پر شکوہ اظہار
٭ معمولی تنقید کے نمونے
٭ ہندوستان کی ادبی تاریخ کے متعلق بعض نادر معلومات
بحثیت مجموعی عیوب زیادہ اور خوبیاں کم ہیں۔(۱۰)
ناصر عباس نیر کے مطابق دتاسی نے تذکروںکے معروضی مطالعے کے بجائے انہیں مغربی تنقیدی اقداری نظام کی روشنی میں پرکھا ہے۔ نیر نے قرات (مطالعاتی طرز) کے دو انداز بتائے ہیں۔ اول اقداری مطالعہ سے مراد ایک اصول ، قدر یا معیار متعین کر کے متن کو پرکھنا، اگر وہ متن اس اصول، معیار اور قدر سے دور ہو جائے تو شدید اعتراضات کر کے اس کو بے کارقرار دینا ہے۔دوم معروضی مطالعہ سے مراد زیر مطالعہ متن کو ہی ایک قدر تصور کر لیا جاتا ہے۔ یعنی اس کے داخلی تناظر کو ہی معیار بنایا جائے۔ اقداری مطالعے صرف دتاسی تک محدود نہیں بلکہ تمام مشرقین نے کیے ہیں۔ نتیجتاً انہوں نے مشرقی علوم و فنون، ادبیات، تہذیب و تمدن میں بے شمار نقائص دکھا کر انہیں بے کار اور مسترد کر دیا ہے۔
فاروقی اور نیر کے دونوں مضامین اس بات کو واضح کرتے ہیں کہ اردو تنقید کا آغاز ’’نوآبادیاتی فکر ‘‘ کے تحت وجودمیں آیا۔ نو آبادیاتی دبائو، نو آبادیاتی شعریات، اقداری مطالعے، مغربی تنقیدی نظام اور یورپی انداز نقد کے تحت اردو ادب کی تنقید جائز نہیں رہی لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ مشرقی شعریات کے مطابق معروضی مطالعہ کر کے صرف اردو ادب کو ہی نہیں بلکہ مشرقی ( خصوصاً ہندوستانی) تہذیب و ثقافت کے تشخص ، اہمیت، قدروقیمت اور معیار کو پہچانا جائے۔ اور یہی پہچان دراصل مشرق کی بازیاقت ہے۔ ردِ نو آبادیات ہے، اور یورپی مرکزیت سے انکار ہے۔
ہمارے مطالعے میں فاروقی کا ایک اور مضمون ہے۔ جس کا عنوان ’’اکبرالہ آبادی ، نوآبادیاتی نظام اور عہد حاضر‘‘ ہے۔ یہ مضمون ان کی کتاب ’’صورت و معنیِ سخن‘‘ میں شامل ہے جو پہلی بار ۲۰۱۱ء میں اوکسفرڈ یونی ورسٹی پریس کراچی سے شائع ہوئی۔ فاروقی نے اس مضمون میں اس روایتی تنقید سے انحراف کیا ہے جس کے مطابق اکبر قدامت پسند اور حریت پسند تھے۔ طنز کو سماجی اصلاح کے لیے استعمال کیا نہ کہ ترقی کے لیے۔ اس نقطہ نظر سے فاروقی نے انحراف کرتے ہوئے دعوی کیا ہے کہ اکبر پہلے شخص ہیں جن کو بدلتے ہوئے زمانے، اس زمانے میں اپنی تہذیبی اقدار کے لیے خطرہ اور انگریزی تعلیم و ترقی کو انگریزی سامراج کے قوت مند ہتھیار ہونے کا احساس شدت سے تھا اور انہوں نے سرمایہ داری اور نوآبادیاتی نظام کے تمام ممکنہ مضمرات کو اپنی بالغ نظری سے دیکھ لیا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ اکبر اپنی مذکورہ بصیرت میں گاندھی اور اقبال سے آگے نظر آتے ہیں۔ اور اس کی دلیل وہ یہ دیتے ہیں، گاندھی اور اقبال نے مغرب اور اس کی تہذیب و تعلیم کا براہ راست مشاہدہ کیا اور قریب سے دیکھا جبکہ اکبر نے مغربی تہذیب کے تمام مضمرات کو ملک سے باہر جائے بغیر دیکھ لیا۔ فاروقی صاحب کی یہ بات یقینا قابل قبول ہے۔یہ انہوں نے اکبر کی انفرادیت میں بڑی بات کی ہے۔ کسی شاعر کی بصیرت ہی اس کو اپنے معتقدین معاصرین اور متاخرین میں نمایاں کرتی ہے۔
اپنے کیے دعوی کو ثابت کرنے میں فاروقی نے جو دلائل دیے ہیں اور جو دلائل کی وضاحت و تشریح کی ہے، اس کو پڑھ لینے کے بعد ان کا دعوی کسی صورت رد نہیں کیا جا سکتا لیکن کسی حد تک اختلاف کی گنجائش باقی رہتی ہے۔ انہوں نے اپنے اس مضمون میں ان اعتراضات کا جواب دیا ہے جو اکبر کے حق میں نہیں ہیں۔ مثلاً اکبر عورتوں کی تعلیم اور آزاد ی کے خلاف ہیں۔ فاروقی صاحب اس کا جواب یوں دیتے ہیںکہ اکبر عورتوں کی تعلیم کے خلاف نہیں بلکہ انگریزی تعلیم کے خلاف ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے، صرف انگریزی تعلیم کے خلاف ہی کیوں ہیں؟ اس کی وضاحت فاروقی نے یوں پیش کی، اکبر کو شکایت یہ تھی کہ انگریزی تعلیم انسان کو ’’صاحب دل ‘‘ نہیں بناتی۔ صرف نوکری کے قابل بناتی ہے۔ آدمی نہیں بناتی۔ نو آبادیاتی تعلیم میں انسانیت کی روح اور امتیاز حق و باطل کی صفت نہیں۔ یہ تعلیم ذہن کو تیز کر سکتی ہے، عقل نہیں دیتی۔ یعنی وہ عقل جو حاصل شدہ علم کو استعمال کرنے کی توفیق دے۔ یہ تعلیم قوت عمل سے ساقط کر دیتی ہے۔ اور مزید یہ کہ وہ نوآبادیاتی عمل داری اور صورت حال پیدا کرنے میں جنگ اور تشدد کا ساتھ دیتی ہے۔
توپ کھسکی پروفیسر پہنچے
جب بسولا ہٹا تو رندا ہے
(اکبر الہ آبادی)
اکبر کو انگریزی تعلیم سے یہ شکایت بھی تھی کہ وکٹوریاتی تعلیم اور فلسفہ یہ سبق پڑھاتے ہیں کہ مغربی تہذیب اور زندگی اور علم سب ترقی کی راہ پر گامزن ہیں۔ فاروقی نے اکبر کے حوالے سے یہ گزارشات پیش کی ہیں۔ ایک طرح سے دیکھا جائے تو اکبر کی شکایتیں، اعتراضات اور خدشات بالکل درست ہیں۔ یورپی مرکزیت کے تمام دعوے جو مغربی مورخین، فلسفیوں اور ناقدین نے پیش کیے انہیں کا ذکر تواکبر کر رہے ہیں۔ یورپی مرکزیت کا سب سے بڑا دعوی ہے کہ یورپی تہذیب ، زندگی اور علم سب ترقی کی راہ پر ہیں، اس کے بر عکس غیر یورپی ، غیر مغربی سب غیر ترقی یافتہ، پسماندہ، جاہل، کاہل، سست اور اس قابل ہیں کہ انہیں مہذب، شائستہ بنانے کے لیے ان پر حکومت کی جائے۔ اور وہ حکمرانی بھی مغرب کرے۔ اس لیے کہ غیر مغربی اس قابل ہی نہیں کہ وہ خود پر خود حکمرانی کر سکیں۔ انہیں مغرب کا مرہون منت ہونا چاہیے۔ اسی لیے اکبر جانتے تھے کہ مغربی تعلیم روح اور عقل کو مغربی اصولوں کا غلام بنا دیتی ہے۔ تعلیم بازاری اور عقل سرکاری ہو جاتی ہے۔ اپنے دعوی کی دلالت کرتے ہوئے فاروقی نے اکبر کی ان چند اہم علامات کا ذکر کیا جن کو اکبر نے مغرب کے حوالے سے استعمال کیا ہے۔
٭ برگڈ:(Brigede)اس سے مراد وہ ہندوستانی ہیں جو انگریزوں کے وفادارہیں۔
٭ کمپ: سے مراد مغربی معاشرت ہے۔
٭ توپ: کو استعماری قوت کے اظہار کے لیے بطور علامت استعمال کیاہے۔
٭ انجن: استعارہ ہے نوآبادیاتی سامراجی کی بے امتیاز قوت کا۔فاروقی کے نزدیک اکبر سارے مشرق کو مغربی انجن پر سوار دیکھتے ہیں۔ گویا یورپ نے مشرق کو اپنی صنعت و حرفت کی تلوار پر رکھ لیاہے۔ یا مال کی طرح لاد لیا ہے۔
٭ دین:استعارہ ہے مشرقی روحانیت کا۔
آگے انجن کے دین ہے کیا چیز
بھینس کے آگے بین ہے کیا چیز
(اکبر الہ آبادی)
اکبر یہاں انجن اور دین میں بھینس اور بین کا تعلق دکھا رہے ہیں۔
فاروقی نے اکبر کا یہ شعر نقل کیا:
عیسی نے دل روشن کر لیا اور تم نے فقط انجن کر لیا
کہتے ہو کہ وہ تھے باپ سے خوش اور تم ہو خالی بھاپ سے خوش
فاروقی نے ’’خالی‘‘ اور ’’بھاپ‘‘ کی تشریح و تعبیر یوں کی ہے۔ بھاپ کے معنی Vapour کے ہیں یعنی جدید ایٹمی بم جہاں گرے گا وہاں ہر چیز دور دور تک Vaporize ہو جائے گی۔ خالی بھاپ دراصل بے حقیقت اور معنویت سے خالی ہے۔
اکبر کی امتیازی خصوصیات کا بیان کرتے ہوئے فاروقی نے یہ نقطہ بیان کیاہے کہ اکبر نے یہ جان لیا تھا، مغربی اقوام مشرقی آدمی کا استحصال کر رہی ہیں، اور تیسری دنیا کے لوگ انہیں پہ مرے جا رہے ہیں۔ یعنی محکوم کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ خود کو حاکم سے ہم آہنگ کر لے۔ لیکن فاروقی نے اکبر کے حوالے سے بتایا ہے کہ اکبر یہ چاہتے تھے کہ وہ خود حاکم کی طرح تباہ کاری کے اسلحہ اور وسائل ایجاد کر سکیں۔ فینن نے اپنی کتاب ’’افتادگانِ خاک‘‘ کے آخری صفحات میں رد نو آبادیات کا ذکر کرتے ہوئے یہ بات کہی ہے کہ استعمارزدہ، استعماری طاقت کا جواب طاقت اور عقل دونوں سے دیں۔ ان (استعمارکار) جیسی طاقت حاصل کریںاور ان جتنی عقل استعمال کر کے نوآبادیاتی صورت حال کو رد کریں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ فینن سے قبل یہ بات اکبر کر چکے تھے۔اکبر کے ہاں مغرب دشمنی ایک مکمل نظامِ فکر ہے،بقول فاروقی:
’’مغرب،یا انگریز کی مخالفت اکبر کے ہاں ایک مکمل نظامِ فکر کے تحت
ہے یہ کوئی فیشن ایبل،چلتی ہوئی بات پر مبنی رویہ نہیں ہے۔‘‘(۱۱)
اکبر کے ہاں اس خواہش نے جنم لیا کہ وہ (ہندوستانی) فوج کے ذریعے دوسرے اقوام کو اپنا غلام بنا لیں۔ یہ خواہش بذات خود ایک بہت بڑا رد استعماری رویہ ہے۔ فاروقی نے اکبر کے امتیاز میں دلیل دی ہے کہ اکبر نے اس دور میں جب نہ صارفیت تھی نہ عالم کاری (Globalization ) اور نہ کارل مارکس کے وہ قول کہ سرمایہ داری کا انتہائی مقصود یہ ہے کہ وہ تمام دنیا ایک بازار میں تبدیل کردے، صارفیت کی بات کی اور آج کل ہم دیکھ رہے ہیں صارفیت اور عالم کاری کا دوردورا ہے۔ جس کا ذکر اکبر نے سو سال قبل کر دیا تھا۔
مجھے بھی دیجئے اخبار کا ورق کوئی
مگر وہ جس میں دوائوں کا اشتہار نہ ہو
ممکن نہیں لگا سکیں وہ توپ ہر جگہ
دیکھو مگر پیئرس کا ہے سوپ ہر جگہ
ایسے میں اکبر کی بصیرت کو سلام نہ کرنا نا انصافی ہو گی۔فاروقی نے اپنے دعوٰی کہ اکبر اردو کے پانچ بڑے شعرامیں سے ایک ہیں کی آخری دلیل یہ دی ہے کہ اکبر نے اس زمانے میں ماحول کی آلودگی کو بھانپ لیا تھا۔ انجن اور گاڑی محض سامراجی طاقت کی توسیع کا وسیلہ ہی نہیں بلکہ ماحول کو بگاڑنے کا بھی سبب ہیں۔
مشینوں نے کیا نیکوں کو رخصت
کبوتر اُڑ گئے انجن کی پیں سے
اکبر نے شہروں میں امیر غریب کی تقسیم کا ذکر کیا۔ مذکورہ بالا دلائل کی روشنی میں فاروقی نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ ایسے شخص کے بارے میں یہ سمجھنا کہ وہ ترقی کا مخالف، رجعت پرست اوردیدہ حق آگاہ سے محروم تھا، زیادتی اور ناانصافی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اکبر تعلیم، ترقی اور سائنس و صنعت کے خلاف نہیں ہیںبلکہ وہ اس نظام کے خلاف ہیں جس نے تعلیم، ترقی اور صنعت کو استحصالی صورت حال کے استحکام کے لیے مدد کی۔
مذکورہ بالا پانچ مضامین کی روشنی میں ہم نے فاروقی کی مابعدنوآبادیاتی تنقیدی بصیرت کی وضاحت پیش کی ہے۔ اور یقینا فاروقی نے نو آبادیاتی شعریات ، غالبؔ کو تہذیبی بحران کا شاعر قراردینا، سر سید اور نو آبادیاتی نظام کا تجربہ اور اکبر الہ آبادی کے متعلق تردید، دعوٰی ، دلائل اور نتائج کی بنیاد پر بہترین ناقدانہ گزارشات پیش کی ہیں۔ جس بنیاد پر ہم انہیں مابعد نو آبادیاتی نقاد تسلیم کرتے ہیں۔
حوالہ جات
۱۔شمس الرحمن فاروقی ۔غالب کے چند پہلو (کراچی:انجمن ترقی اردو کراچی،۲۰۰۱ء)ص۲۷
۲۔ شمس الرحمن فاروقی۔اکبر،نئی تہذیبی سیاست اور بدلتے ہوئے اقدار(نئی دہلی:جواہر لعل نہرو مارگ،۲۰۰۲ء)ص۱۶
۳۔ ایضاً،ص۱۶،۱۷ ۴۔ایضاً،ص۱۷
۵۔ایضاً،ص۱۸ ۶۔ایضاً،ص۲۱
۷۔شمس الرحمن فاروقی۔تحقیق آثار سے سماجی انقلاب تک ،سید احمد خان اور نوآبادیاتی نظام کا تجربہ
(علی گڑھ:علی گڑھ مسلم یونیورسٹی،۲۰۰۷ء)ص۲۵
۸۔شمس الرحمن فاروقی۔’’نوآبادیاتی شعریات اور ہم‘‘،مشمولہ سہ ماہی نئی کتاب ،۱۶،جنوری تا مارچ ۲۰۰۷ء ،ص۹
۹۔شمس الرحمن فاروقی۔’’نوآبادیاتی شعریات اور ہم‘‘،ص۱۲
۱۰۔ناصر عباس نیر۔’’تذکروں کے نوآبادیاتی بیانیے‘‘،مشمولہ ماہنامہ ’’قومی زبان‘‘،جلد۸۱،شمارہ ۹،ص ۱۱
۱۱۔شمس الرحمن فاروقی۔’’اکبر الہ آبادی ،نوآبادیاتی نظام اور عصر حاضر‘‘،مشمولہ صورت و معنی ِ سخن
(کراچی:اوکسفرڈیونی ورسٹی پریس،۲۰۱۱ء)ص۱۶۴
کتابیات
۱۔ شمس الرحمن فاروقی ۔غالب کے چند پہلو ،کراچی:انجمن ترقی اردو کراچی،۲۰۰۱ء
۲۔شمس الرحمن فاروقی۔اکبر،نئی تہذیبی سیاست اور بدلتے ہوئے اقدار،نئی دہلی:جواہر لعل نہرو مارگ،۲۰۰۲ء
۳۔شمس الرحمن فاروقی۔تحقیق آثار سے سماجی انقلاب تک ،سید احمد خان اور نوآبادیاتی نظام کا تجربہ، علی گڑھ:علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی،۲۰۰۷ء
۴۔شمس الر حمن فاروقی۔صورت و معنیِ سخن،کراچی:اوکسفرڈ یونی ورسٹی پریس،۲۰۱۱ء
رسائل
۱۔قومی زبان،جلد۸۱،شمارہ۹
۲۔نئی کتاب،۱۶،جنوری تا مارچ ۲۰۰۷ء
(مشمولہ : بنارس ہندو یونی ورسٹی انڈیا کا ریسرچ جرنل ” دستک ” شمارہ 5)