راجندرسنگھ بیدی اردوادب کے افسانہ نگاراور ڈرامہ نویس ہیں۔وہ ۱۹۱۵ء میں لاہور میں پیدا ہوئے ۔ان کا پہلا افسانہ’’ بھولا‘‘ ہے جو ۱۹۳۶ء میں شائع ہوا۔بیدی کے افسانوی مجموعے’’ــــــــــــــــ دانہ و دوام،گرہن،کوکھ جلی،اپنے دکھ مجھے دے دو،ہاتھ ہمارے قلم ہوئے اور مکتی بود‘‘ہیں۔ انہوںنے اردو افسانہ نگاری کو ایک مضبوط ستون فراہم کیا۔راجندر سنگھ بیدی ترقی پسند تحریک سے اس حد تک وابستہ تھے کہ اپنے اردگردکے پس ماندہ ماحول کی مصوری اور مرقع کشی کر سکیںکیوں کہ بیدی کا خیال تھا کہ ادب کو تحریکوںکا پابندنہیں ہونا چاہیے۔ان کی نظر میں سب سے زیادہ اہم چیزانسان کا اپنا وجوداور اس کا اپنا ذہن ہوتا ہے جو تخلیق کرتا ہے۔یہی تخلیق بیدی کی نگاہ میں سچا ادب تھا۔اسی متوازن مزاج و خیالات نے راجندرسنگھ کی ترقی پسندی کو کبھی انتہا پسندی کی حدود میں داخل نہیں ہونے دیا۔راجندر سنگھ کی نظر حقیقی زندگی میں بھی ہمیشہ اپنے گرد و پیش کی زندگی کی تاریکیوں پر ہی رہی اور وہی ان کے افسانوں کے موضوعات بنے۔
حقیقت کو حقیقی لباس میں پیش کرنا بیدی کی فطرت تھی۔وہ حقیقت کو معمہ بنا کر پیش کرنے کے قائل نہیں تھے ۔حقیقت کتنی ہی تہہ دار ہو اسے سیدھے سادے انداز میں پیش کرنا ہی وہ اپنا فرض سمجھتے تھے ۔یہی وجہ ہے کہ ان کے یہاں نہ صرف سماجی کشمکش کا جذباتی منظر وجد کرتا ہے بلکہ نفسیاتی کشمکش کے بہترین نمونے بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔جن میں خصوصی مرکز عورت ہوتی ہے ۔اس نفسیاتی کشمکش کو پیش کرنے میں اشاروں اور کنایوں سے کام لینے کا جو بہتر اور نکھرا ہوا انداز ہمیں بیدی کے یہاں نظر آتا ہے وہ ان کے معاصر افسانہ نگاروں کے ہاں کم نظر آتا ہے۔انسانی رشتوں کی خوبصورت پیش کش بھی بیدی کے افسانوں کی خصوصیات میں شامل ہے ۔جس کی بیک وقت سماجی حدیں بھی ہوتی ہیں اور نفسیاتی الجھنیں بھی اور جس میںزندگی کی آنچ بھی ہوتی ہے اور زندگی کی حقیقی تصویربھی۔زندگی کی حقیقتوں کی مرقع کشی ہی بیدی کے افسانوں کی اصل روح ہے۔
ان کے افسانوں میں فن کے اعتبار سے ایک خاص قسم کا نکھار نمایاں ہے۔جس میں زندگی کے تجربے کوٹ کوٹ کر بھرے ہوئے ہیں۔زندگی کی کوئی کل سیدھی نہیں ہوتی مگر فنکار اپنی بصیرتوں سے انہیں فن کے پیمانے پر سیدھاکرنے کی کوشش کرتارہتا ہے ۔جس سے زندگی اور زمانے کی گتھیاں سلجھ جاتی ہیں اور اس کا حقیقی عرفان حاصل ہو جاتا ہے۔بیدی نے انسانی کرب اور سماجی کرب کو فن کی مؤثرزبان عطاء کی ہے۔ان کی کہانیوںمیںدبے کچلے انسانوںکی کراہیں،مظلوموںاورناداروںکی سسکتی ہوئی آوازو اشارے ملتے ہیں۔وہ اپنے افسانوںمیںصرف سماجی سچائیوںکی پردہ داری نہیںکرتے بلکہ فن کا اعلیٰ تصور بھی پیش کرتے ہیں۔بیدی کے افسانوی فن کا یہ میلان ان کے ابتدائی افسانوںـــ’’من کی من میں،گرم کوٹ،وٹامن بی‘‘وغیرہ سے لے کر آخری دور کے افسانوںمثلاً’’جنازہ کہاں ہے،رحمن کے جوتے‘‘ وغیرہ تک پھیلا ہوا ہے۔ان افسانوں کے کردارصرف ا فسانوی فضاکی تعمیر ہی نہیںکرتے بلکہ زندگی کے عمیق تجربوںاور مشاہدوںکو ایک فنی تصورمیںبدلنے کا کام بھی انجام دیتے ہیں۔مذکورہ افسانہ’’ رحمان کے جوتے‘‘ کا جائزہ(حقیقت پسندافسانہ) ذیل میں درج ہے۔
یہ افسانہ سماجی مسائل کو منظر عام پر لا نے اور ادبی دنیا میں انقلابی تبد یلیاں پیدا کرتا ہے ۔اس افسانے میں کسی نہ کسی حوالے سے اسا طیری اور استعاراتی فضا نظر آتی ہے۔جوتے پر جوتا چڑھنا سفر کی علامت ہے اور یہی علامت رحمان کے آخری سفر کے المیہ کی علامت بنتی ہے۔رحمن کے جوتے بظاہر سیدھا سادا لیکن گہری فنکارانہ بصیرت سے ضبط تحریر کیا گیا ہے۔افسانے کا پہلا تاثرتو یہی ہے کہ جوتے پر جوتا چڑھتا ہے تو اسے سفر در پیش ہوتا ہے ۔رحمان کے ساتھ اکثر ایسا ہوا ہے کہ جوتے پر جوتا چڑھتا ہے تو اسے سفر در پیش آتا ہے ۔پارسال ایسا ہوا تو رحمان کو پرچی ڈالنے کلچری جانا پڑا۔سو اتفاق سے اس بار بھی نظر اپنے جوتوں پرجا پڑی جو اس نے جلدی سے کھاٹ کے نیچے اتاردیئے۔رحمان نے ہنستے ہوئے کہا آج پھرمیرا جوتے پر جوتا چڑھ گیا۔اللہ جانے کون سے سفر پر لے جانا ہے۔
’’جینا ںکو ملنے جانا ہے اور کہاں جانا ہے ۔یونہی تو نہیں تیرے گودڑدھو رہی ہوں،بڈھے‘‘۔
اپنی بیٹی سے ملنے جانا ہے سفر پر روانہ ہونا ہے۔یہ سفر رحمان کی زندگی کا آخری سفرثابت ہوتا ہے ۔جوتے پر جوتا چڑھا ہوا سفر کا شگون ہے یکا یک ایک منحوس علامت بن جاتا ہے ۔
رحمان کی موت کو غم زدہ آنکھوں سے دیکھتے ہیں۔یہ موت کرنال کے ریلوے اسپتال میں واقع ہوئی۔رحمان کی گٹھری چوری ہوتی ہے تو رحمان شور مچاتا ہے ۔کانسٹیبل سے ہاتھا پا ئی میں چیکر کی لات رحمان کی تلی پر پڑتی ہے تو اسے اسپتال لے جایا جاتا ہے اسپتال میں بیڈ پر لیٹے اس کی نظر اپنے جوتوں پر پڑتی ہے پھر ایک جوتا دوسرے جوتے پر چڑھ گیا۔
رحمان میلی سی سکڑی ہوئی ہنسی سے بولا ’’ڈاکٹر جی !مجھے سفر پر جانا ہے آپ دیکھتے ہیں میرا جوتا جوتے پر کیسے چڑھ گیا ہے ڈاکٹر جواباًمسکرا کے کہتا ہے ہاں بابا تو نے لمبے سفر پر جا نا ہے ۔ڈاکٹر کے معمولی الفاظ میں کتنا درد بھرا ہوا ہے ۔ان چند لفظوں میں رحمان کے طویل سفر کی کیسی مختصر روداد سمٹ آئی ہے ۔رحمان کی پوری تیاری تو سفر کے لیے ہی تھی اور سفر میں ہی تھا پھر اچانک یہ سفر آخری سفر کیسے بن گیا ۔رحمان کی موت ہمیں ایک گہرے سناٹے میں چھوڑ جا تی ہے ۔اس وقت ہماری نظریں بھی جوتے پر پڑتی ہیں ۔جو تے اب ominius presence بن گئے ہیں ۔ایسا لگتا ہے وہ خاموش بے حس آنکھوں سے رحمان پر بڑھتے ہوئے موت کے سایہ کو دیکھ رہے ہیں گویا وہ اس منظر کے لیے رحمان کو چلا کراس اجنبی شہر کے اسپتال میں غریب الوطنی کی بے سہارا موت کے لیے یہاں لائے ہیں ۔اس طرح جوتے کو پیچ در پیچ ایسی طنزیہ معنویت عطا کرتے ہیں کہ افسانہ جو کچھ بھی ہے گویا وہ جوتوں ہی کے صدقے ہے۔افسانے سے جوتے نکال دیجیئے کہانی وہی رہتی ہے لیکن ریڑھ کی ہڈی کے بغیر ۔اس کہانی کے متعدد variations ہو سکتے ہیں یعنی ایک غریب آدمی جو اپنی بیٹی اور نواسے سے ملنے جا رہا ہے اس کی اچانک موت ہوجاتی ہے ۔ریل کے حادثہ میں یا پلیٹ فارم پر پھسل جانے پر یا فسادیوں کے ہاتھوں مارے جانے سے لیکن جو کہانی جوتے پر جوتا چڑھنے سے بنتی ہے وہ ہاتھ نہیں آئے گی کیوں کہ جوتے سفر اور آخری سفر د ونوں کی پیش بینی کر رہے ہیں ۔
افسانہ کا پہلا ہی جملہ دیکھیئیـ:
’’دن بھر کام کرنے کے بعد جب بوڑھا رحمان گھر پہنچا تو بھوک اسے بہت ستا رہی تھی‘‘۔
معمولی جملہ ہے لیکن جیسے جیسے افسانہ آگے بڑھتا ہے تو بوڑھا کا دن بھر کام کرنا بھوک لگنا کے وہ معنی نہیں رہتے جو جملے میں ہیں۔ رحمان دن بھر کھیت میں کام کرتا ہے لیکن وہ ہمیشہ سے محنتی اور جفا کش نہیں رہا ۔پہلے سپاہی تھا مگر تربوز پر پھسل کر گھٹنا توڑ بیٹھا اور اس نے پینشن لے لی ۔اسے بھوک لگ رہی ہے اور چھ ماہ سے تلی بھی بڑھی ہوئی ہے ۔اس لئے وہ گڑ ،تیل ،بیگن ،مسور کی دال ،گائے کے گوشت اور چکنی غذا سے پرہیز کرتا تھا لیکن آج بڑھیا نے گوشت پکایا تھا پہلے بیگن اور مسور کی دال بھی پکائی تھی ۔ رحما ن چپ رہا مگر آج بڑبڑایا ۔بڑھیا تو مجھے مار ڈالنے بیٹھی ہے لیکن رحمان جب کھا نے بیٹھا تو خوب ڈٹ کر کھایا۔بیدی نے اس افسانے میںگھریلو حقیقت پسندی کو دکھانے کی کوشش کی ہے۔ باہمی رشتوں کی نوعیت ان کی نفسیات دکھانے کی کوشش کی ہے۔ بیدی نے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ انسانی رشتے زندگی میں کتنے اہم ہو تے ہیں۔باہمی رشتوں کا آپس میں مزاج دکھایا ہے ۔ان کی سوچ ان کے جذبات کو دکھایا ہے۔
سفرِحیات کے یکایک نا گہانی طور پر ختم ہو جانے کی بات تو اپنی جگہ ٹھیک ہے لیکن سفر میں تو یقین اس بات پر ہی ہوتا ہے کہ منزل کو ہم خیریت سے ہی پہینچیں گے ۔افسانہ میں سفر اور سفر ِحیات کا خاتمہ اچانک ہو جاتا ہے اور ایک ہی نشانی جو سفر کی ہے وہی سفرِحیات کے خاتمے اور عدم کے طویل سفر کے آغاز کی بھی بن جاتی ہے تو جوتے پر جوتا چڑھا پر اسرار رمزیت اور آسیبی خوف کی علامت بن جاتا ہے ۔گویا وہ انجانی ان بوجھی غیر مرئی اور غیبی طاقتوں کے کارندے ہوں ۔
موت کے آخری سفر میں رحمان کی زندگی ایک چھوٹی سی فلم کی صورت نظروں کے سامنے سے گزر جاتی ہے ۔چند چہرے اپنی جھلکیاں دکھا کر غائب ہو جاتے ہیں ۔پولیس ،لات ،پلیٹ فارم پر پڑا ہوا گڈیرا اور مکئی کے بھٹے جینا کی ماںنے بیٹی اور نواسے کے لیے دیئے تھے۔ گڈیرا رحمان نے سٹیشن سے خریدا تھا کہ وہ نواسے کو اس کی مدد سے چلنا سکھائے ۔یہی کچھ تھا جور حمان کے پاس موت کے مہیب تجربے کا پس منظر انداز تھا اور وہ جوتے جو غریب الوطنی کے بے نواموت کے شاہد تھے ۔رحمان انھیں دیکھ کر ایک میلی سی ہنسی ہنستا ہے گویا جوتوں سے کہہ رہا ہو ’’نئے سفر کی اب کوئی گنجائش تو نہیں لیکن تمہارا تقاضا پورا کر رہا ہوں ‘‘
رحمان اور اس کی بڑھیا کی افلاس زدہ روکھی پیکھی زندگی ۔رحمان کا اس کی تلی کی بیماری ،ٹرین میں گٹھریا کی چوری اور جھگڑا اور لات اور اسپتال میں موت کے بیان کے لیے کون سے جھالر کی ضرورت پڑتی ہے۔یہاںتو ضروریات ِزندگی ہی ضرورت بیان کا تعین کرتی ہیں۔رحمان کی زندگی میں کوئی ایسی بات نہیں جو اسے ہمارے سامنے دلچسپی کا باعث بنائے ۔یہی حال اس کی بڑھیا اور کھولی کا ہے ۔ایک بیٹی جینا ںہے ۔جس کی یاد رحمان کی سوکھی چٹیل زندگی میں فرحت بخشتی ہے لیکن وہ تو دور اپنے سسرال میں ہے ،رحمان اس سے ملنے کے لیے انبالہ کے سفر پر روانہ ہوتا ہے ۔
یہ ہاں نہیں ،اثبات و نفی، سب کچھ ٹھیک تھا اور نہیں بھی تھا والا اسلوب زندگی کے دونوں رخ سامنے لاتا ہے اور کسی ایک رنگ کو سفید یا سیاہ کو گہرا ہونے نہیں دیتا۔جس سے عام آدمی کی عام زندگی کی پیشکش میں حقیقت نگاری ایک مستحکم طریقہ کارکے طور پر رہتی ہے اور جذبات یا کلبیت کا شکار نہیں ہو پاتی جیسا کہ کم صلاحیت لکھنے والوں کے یہاں ہوتا ہے ۔عام طور پر زندگی ایسے ہی اڑدھنگے طریقہ پر گزرتی ہے ۔اس کا کوئی ڈھلا ڈھلایا نستعلیق روپ نہیں ہوتا نہ کرنے کے کام آدمی کر ڈالتا ہے اور جو کام کرنے چاہیں وہ نہیں کرتا اور اگر کرتا ہے تو اس کا پھل نہیں ملتا اور اگر ملتا بھی ہے تو ہمیشہ میٹھا نہیں ملتا ۔زندگی میں بہت کچھ غیر یقینی اور پیش بینی ہے اور منزل قریب آکر بھی دور ہو جاتی ہے اور مختصر سا سفر لمبے سفر کا پیش خیمہ بنتا ہے ۔رحمان کے جوتے ایسی ہی زندگی کا آئینہ ہیں اور بیدی نے اسے خوب صقیل کیا ہے ۔اس لئے تو سینے پر گھونسہ لگتا ہے سب کی زندگی میں سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہونے کے باوجود سب کچھ ٹھیک ٹھاک نہیں ہوتا اور دم رخصت بہت سی چیزیں بکھری پڑی ہوتی ہیں اور خصوصا ً ــــوہ گڈیرا جس سے ہم نے پایا چلنا سیکھا تھا اور ابھی زندگی کا چلن پیدا بھی نہیں ہوا تھا کہ زمانہ اپنی چال چل گیا۔
’’گائے کا گوشت زہر سہی لیکن رحمان اسے چٹخارے لے لے کر کھانے لگا ۔کتنا ذائقہ دار گوشت بنایا ہے ،میری جیناں کی ماں نے ۔لقمہ جب منہ میں جاتا ہے تو اسے خیال آتا آخر اس نے جینا کی ماں کو کون سا سکھ دیا ہے ۔ادھر بڑھیا کے سوچنے کا ڈھنگ بھی نیارا تھا ۔جب سے وہ پیٹ بڑھے ہوئے اس ڈھانچ کے ساتھ وابستہ تھی‘‘۔
یہ مثبت اور منفی امواج َـ فکر کا رقص جیناں کے ذکر کو بھی اپنی گردش میں لیتا ہے ۔جیناں کی شادی علی محمد سے ہوئی ۔سپاہی سے ترقی کرتے کرتے وہ نائیک بن گیا ۔نائیک بننے سے پہلے جینا سے بہت اچھا سلوک کرتا مگر اب اپنی نظر میں اتنا بلند ہو گیا کہ جینا کو پاؤں کی جوتی سمجھتا تھا ۔
جیناںبہت ہی نرم گوشہ تھی رحمان کے دل کا ۔نواسے کے ساتھ رحمان جب کھیلنے کا تصور کرتا ہے تو جینا ں کا بچپن زندہ ہو جاتا ہے ۔افسانہ نگار نے معاشرتی مجبوریوں کو دکھایا ہے کہ باپ بیٹی کو گود میں بٹھا نا چاہتا ہے مگر اب بڑی ہو گئی ہے تو وہ اسے کیسے بیٹھا سکتا ہے ۔بچپن میں بڑی آسانی سے جب کھیل کر آتی ہے تو اسے سینے سے لگا لیتا ۔ان دنوں یہ دل پر سلگتا ہوا اپلا محسوس ہوتا تھا۔یہ سلگتا ہوا اپلا زندگی کا وہ غم ہے جس سے آدمی کو نجات نہیں ۔بچے اسی لئے راحت جان ہیں کہ ان کے ساتھ چہلیں کرتے ہوئے آدمی لمحہ بھر کو زندگی کی تپتی ہوئی دھوپ سے نکل کر بچپن کی ٹھنڈی چھاؤں میں پہنچ سکتا ہے ۔جیناں کی بچپن کی یادیں رحمان کے دل کو رقت سے بھر دیتی ہیں۔
رحمان کو یقین تھا کہ وہ ان سب کو یاد کرکے روئے گا لیکن آنسوؤں کی اس برسات میں بجلی بھی چمک جاتی ہے ۔زندگی کا سفر جاری ہے ،ریل کا سفر جاری ہے ۔ملکہ رانی سے مانک پور پہنچتے پہنچتے رحمان نے اپنے نواسے اسحاق کے لیے بہت سی چیزیں خریدلی۔رحمان کا ٹرین کا سفر اس کے سامان کی چوری اور لڑائی وغیرہ ڈبہ کا پورا منظر جس حقیقت پسندانہ معروضیت اور نفسیاتی بصیرت سے لکھا گیا ہے اس میں بھی ڈھال کے دونوں پہلوؤں کو دیکھنے کی کوشش کی گئی ہے نہ تو رحمان کی بے جا طرف داری کی گئی ہے نہ دوسروں پر طنزو ملامت ہے ۔گائے کا گوشت کھانے سے لے کر کانسٹیبل کی وردی پھاڑنے تک رحمان کو جونہ کرنا چاہیے تھا وہی اس نے کیااور اب اس کا خمیازہ بھگت رہاہے۔یہ خمیازہ بہت بھاری ہے ۔قدرت انسان کے گناہوں اور غلطیوں کی سزااسے دیتی ہے ۔زیادہ تر تو یہ سزا اس دنیا میں اس کے غلط کام کرنے کا ہی نتیجہ ہوتی ہے ۔چوہدری نے رحمان کو مارا وہ بچ گیا مگر اب رحمان کی گٹھری آگئی تھی جبھی تو اس سے غلطیاں سر زد ہوتی رہیںجو نہ ہونی چاہیے تھی یہی اس کا المیہ ہے اور اس کے المیہ میں ہم انسانی زندگی کے بنیادی المیہ کا عکس دیکھ کر لرز اٹھتے ہیں ۔ہمارے لبوں پر بھی ایک غم ناک میلی سی مسکراہٹ پھیل جاتی ہے اور نظریں چارپائی کے نیچے جلدی میں بے دھیانی میں غلطی سے بے پروائی سے اتارے ہوئے ان جوتوں پر جم جاتی ہے جو ایک پر ایک چڑھا ہوا ہمارے مختصر اور لمبے سفر کی علامت بنے ہوئے ہیں ۔