آج سے کوئی گیارہ بارہ ہزار برس اُدھر کی بات ہے جب یہ شمالی خطّہ ابھی برفانی دور سے گزر رہا تھا ۔۔۔ ہر سُو برف کا ڈیرہ تھا۔ زندگی کی روئیدگی سفیدی کی یخ تہوں کے نیچے دبکی بیٹھی تھی۔سفید سفید پہاڑ تھے اور برفیلی ہوائیں۔ کپکپاتی زندگی کسی تیشہ بکف دیوانے کی منتظر تھی اور زبانِ حال سے پکار رہی تھی:
کس کی قسمت میں ہے فرہاد کا تیشہ ہونا
مگر یہاں نہ تو کوئی فرہاد تھا اور نہ ہی اس کا تیشہ۔اگر کچھ تھاتو ماحول کی سرد مزاجی اور بس۔ اور ماحول کی یہ سرد مزاجی بدلتی بھی تو کیسے؟ کسی نے:
شرر شرر کوئی پیکر کبھی چھوا بھی تو ہو
ایسے میں اگر کوئی یوں کہہ اٹھے تو کیا غلط ہے:
چار سو اک برف بستہ عہد نم کا راج ہے
دھوپ میں حدت نہیں دریاؤں میں پانی نہیں
زمین کے بطن سے دریاؤں کے سوتے تو ابھی پھوٹنا تھے۔ انھیں انتظار تھا تو دھوپ کی مہربان حدت کا۔۔۔اور پھر شانِ قدرت کہ دھوپ میں تپش بیدار ہوگئی۔سرد مہر، دبیز سفید تہیں مہین ہوتی گئیں اور پھر دریا پھوٹ بہے۔پانی کے معمولی قطرے بخارات کے روپ میں اُڑے توبادلوں کو اپنے وجود کی پہچان ملی اور بارشیں ہوئیں،بہت بارشیں۔۔۔ایک دوسری کی انگلی تھامے، کندھے سے کندھا ملائے جڑواں بارشیں۔۔۔جیسے ہمارے شاعر کی بھری آنکھیں دعا بن کر چھلک اٹھی ہوں:
بھری رکھنا مرے مولا یہ آنکھیں
دکھوں کی بارشوں کا مان رکھنا
بارشیں اگرچہ دکھ کی نہ تھیں مگر مالک نے مان ضرور رکھا۔اب رم جھم تھمی تو خوابیدہ روئیدگی نے سر اٹھایا۔ کہیں تو خود سر پانی نے نیاز آگیں مٹی کو الوداع کہہ دیا اور اپنی الگ ہستی کا اعلان کردیا چشموں، دریاؤں اور جھیلوں کی صورت۔۔۔اور کہیں اس نے اسی مٹی کے ساتھ وفا نبھانے کے عہد وپیماں باندھ لیے جو وہ اب تک نبھا رہاہے۔
قدرتی آبشاروں میں گِھرے کینیڈا کے شہر ہملٹن کی مصروف بندرگاہ سے کچھ ہی پر ے خو ب صورت نشیبی خطے’’کُوٹس پیراڈائز مارش‘‘ کے دل کش مناظرعبور کرتے ہوئے عہدِ وفا سے گندھی یہی پُر نم، نرم و گداز مٹی آج میرے قدموں سے چُھو گئی ہے۔ ریشم ریشم قالین کی طرح پاؤں دھنساتی دبازت۔۔۔ہر طرف ننھے ننھے زرد اور نارنجی پھولوں سے لدی خود رو جھاڑیاں اور سرکنڈوں کی طرح تیکھی لانبی لانبی ہری گھاس۔اب میں ان سے اُوپرآگیا ہوں لکڑی کے تختوں سے بنے ایک پُل پرجس کے نیچے بے نیاز مگر مطلبی مرغابیوں کی ایک ٹولی سے کچھ فاصلے پر دھاری دار، بھورے، شریر چِپ منکس اور سیاہ جنگلی گلہریاں آنکھ مچولی کھیل رہی ہیں۔ کچھ فاصلے پر دریائے نیاگرا سے آب پاتی جھیل اونتاریو کی جھلمل جھلمل کرتی لاپروا لہروں پر رنگا رنگ بادباں لہراتی کشتیاں رواں ہیں اوران کے ساتھ ساتھ اُڑ رہی ہیں سفید آبی پرندوں کی ڈاریں۔۔۔اور پس منظر میں سبز پہاڑیوں کی چوٹیوں سے ہم کلام بادلوں سے آراستہ شفاف نیلا آسمان۔۔۔میں کھو سا گیا ہوں۔
دیکھتے ہی دیکھتے سورج کی چاندی سونے میں ڈھلنے لگی ہے۔دھوپ کی سفید چادر طلائی رنگ ہوکر مچلتی لہروں پر پھیل گئی ہے اوراب خود بھی مچل رہی ہے۔ لہریں دھوپ بن گئی ہیں یا دھوپ لہروں میں ڈھل گئی ہے۔ جاننا مشکل ہے۔افق پر شفق رنگ حنا کھلنے لگی ہے اور آبی پرندوں کی سُنی گئی ہے جو اپنی زبان میں غالباً یہی گنگناتے پھر رہے تھے:
افق افق شفقِ درد کی حنا بھی تو ہو
کنارے سے نظارہ کناں ہر آنکھ اس حسیں منظر سے لطف کشید کررہی ہے مگر مغرب میں ڈوبتے نارنجی سورج سے کوئی نہیں پوچھ رہا کہ:
تم سورج ہو تم کو لہنا کیسا لگتا ہے؟
کسی کو اس کے دکھ کا احساس نہیں۔ مجھے بھی نہیں۔ مجھے تو رنگ سے مطلب ہے۔سو، اُدھر دیکھ رہا ہوں جدھر:
رنگ سا پھرتا ہے زیر آسماں دیکھا ہوا
کہاں دیکھا تھا یہ رنگ؟ میں اپنے آس پاس بکھری خاموشی سے پوچھنا چاہتا ہوں۔۔۔ مگر کوئی سرگوشی کرتا ہے:
’’بس‘‘ چپ کا حسن دیکھو بے کار لب نہ کھولو
یہ۔۔۔یہ آواز بھی تو آشنا سی ہے۔ میری سُنی ہوئی ہے۔۔۔یہ کون مہربان ہے جوشام کنارے، ایک شنیدہ صدا کی طرح میرے ساتھ ساتھ چل رہا ہے:
ساتھ چلتا ہے کنارے پر کناروں کی طرح
کیا کہوں خالدؔ کہ ہے یہ مہرباں دیکھا ہوا
ہاں، میں نے اسے دیکھا ہوا ہے۔۔۔لیکن کہاں:
روبرو اک عکس ہے جانے کہاں دیکھا ہوا
لیکن یہ عکس ہے کس کا؟ کبھی ہلکی ہلکی نم دھوپ کی طرح کھلتا ہوا اور کبھی دھیمی دھیمی خوشبو کی طرح سانسوں کو معطر کرتا ہوا۔ پل پل روپ بدلتا یہ کون فن کار ہے؟ تو جواب ملتا ہے:
ایک دن خاؔلد ہمیں یہ سوانگ بھرنا تھا بھرا
یہ تو خاؔلد احمد کا مصرعہ ہے۔ اب میں چپ نہیں رہ سکتا۔۔۔میں پہچان گیا ہوں۔ سمجھ گیا ہوں میں۔۔۔ لیکن کسے؟ فن کار کو؟ فن کار کی ذات کو یا اس کے فن کو؛ اس کے شاہکار کو؟۔۔۔ کس کو؟
ذات آخر ذات تھی شہکار پھر شہکار تھا
کس کے فن کے واسطے سے کس کو سمجھا کون تھا
میں پھر خاموش ہو گیا ہوں۔۔۔سوچ رہا ہوں۔کس سے پوچھوں؟ یک دم رک رک کر چلتی نرم ہوا کا ایک آوارہ جھونکا میرے قریب سے گزرتے ہوئے کہتا ہے:
’’میں بتاتا ہوں۔ میں نے تاریخ کے اوراق بہت پلٹے ہیں۔ایک روشن ورق پر لکھا تھا کہ خالد احمد5 جون 1944ء کو لکھنؤمیں پیدا ہوئے۔ تقسیم ہند کے بعدپاکستان چلے آئے۔ قدرت سے خدیجہ مستور اور ہاجرہ مسرور جیسی بہنیں، نجیب احمد جیسا دوست اور احمد ندیم قاسمی جیسے مہربان منہ بولے بھائی ملے اور حکومت سے حسنِ کارکردگی کا تمغہ۔‘‘
اِس پر پاس ہی سے ایک خوب صورت رنگین پرندہ ہنستے ہوئے کہتا ہے: ’’حُسنِ کارکردگی کا سرکاری تمغہ! اس کی کیا حیثیت ہے ایک سچے فن کارکی خدمات کے مقابلے میں! ویسے بھی خالد کو اصل تمغے تو محبت کے ملے جو بے بہا اور ان مول تھے۔ شائد تمہیں علم نہیں مگرمیں ان سے ملاتھا جب انہوں نے ’’پہلی صدا پرندے کی‘‘ نظم کی تھی، ’’دراز پلکوں کے سائے سائے‘‘، ہتھیلوں پر چراغ‘‘ سجائے، ’’نم گرفتہ‘‘ ’’کاجل گھر‘‘ میں بیٹھے تھے۔ ایک نادیدہ ساہالہ ان کے گردا گرد مہک رہا تھا۔۔۔تم ملے ہو کیا کبھی ان سے؟‘‘وہ چہکتے ہوئے مجھ سے پوچھتا ہے۔
میں کہتا ہوں: ’’ہاں، کئی بارملا ہوں۔ پہلے پہل میں نے انہیں لاہور کے مشاعروں میں سُنا نعت اور غزل کے وجدآفریں رنگ بکھیرتے ہوئے اور گُلہائے دادو تحسیں سمیٹتے ہوئے:
خَلق میں انساں تھا لیکن خُلق میں قرآن تھا
وہ کہ سر تا پا جمالِ سورۂ رحمان تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سطرِ خاتِم تھا خدا کے آخری فرمان کی
سِلکِ تسبیحِ رُسُل کا آخری مرجان تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس شہر کی جانب مرے پاؤں نہیں اٹھتے
اس دل سے وہی دور کرے گا یہ جھجک بھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا میں نے کیا ہے کہ سزا وار ردا ہوں
مجھ کو تو بہت ہے تری کملی کی جھلک بھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترکِ تعلقات پہ رویا نہ تو نہ میں
لیکن یہ کیا کہ چین سے سویا نہ تو نہ میں
۔۔۔۔۔۔۔۔
ہر چند اختلاف کے پہلو ہزار تھے
وا کرسکا مگر لبِ گویا نہ تو نہ میں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ گلی ہم سے چھوٹتی ہی نہیں
کیا کریں آس ٹوٹتی ہی نہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پھول سے باس جدا فکر سے احساس جدا
فرد سے ٹوٹ گئے فرد قبیلے نہ رہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سنگ دل جب بھی کوئی یاد آیا
لگ کے دیوار سے رویا کوئی
پھر میں نے خالد صاحب کو دیکھا۔۔۔واپڈا ہاؤس کے محکمہ تعلقاتِ عامہ کے دفتر میں جناب خالد صدیقی، جناب رضا صدیقی، جناب افتخار مجاز،جناب حفیظ تائب اور دوسرے دوستوں کے ساتھ چھیڑ خانی کرتے ہوئے بھی اور سنجیدہ فکری و ادبی مکالمہ کرتے ہوئے بھی۔ اپنی ہی دُھن میں، لہکتے لہکتے، شہر کی سڑکوں پر گنگناتے ہوئے، سہ پہر کواحبابِ’’ فنون‘‘کے مابین اور شام کواہلِ ’’بیاض‘‘ کیساتھ۔ اور شب ڈھلے لکشمی چوک کے چائے خانے میں سر، کندھوں اور ہاتھ کی مالش کرواتے ہوئے، نوجوان شعرا کی حوصلہ افزائی اور تربیت کرتے ہوئے، ملک اور بیرونِ ملک سے آئے ادبی مہمانوں کی مدارات کرتے ہوئے۔ مسکراتے ہوئے، ہنستے ہوئے۔۔۔اور اونچا ہنستے ہوئے۔۔۔اور پھر جانے کس سے استفسار کرتے ہوئے:
شامیں تم کو بھی شب بھر بے کل رکھتی ہیں!
’’وہ ان کے دوست نجیب احمد تھے، بھلے آدمی! جن سے مخاطب تھے خالد احمد۔ تم کچھ نہیں جانتے۔تم سے زیادہ تو میں جانتا ہوں‘‘۔ خوب صورت پرندہ کہہ رہا ہے۔’’میں شہروں شہروں، ملکوں ملکوں گھوما ہوں۔ خالد صاحب کی عظمتِ فن کو سبھی تسلیم کرتے ہیں، مانتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے غزل کو نئے رجحانات سے آشنا کیا، ترقی پسندی کو ایک نیا مفہوم دیا۔ ان کی شاعری نے ابلاغ کے نت نئے دریچے وا کیے اور اردو ادب کی فضا کو اسلوب و اظہار کی خالص پاکستانی تروتازگی اور مہک سے آشنا کیا۔سچ ہے کیا؟‘‘
’’اِس سے کیا پوچھتے ہو، اسے کچھ پتہ نہیں۔ کیا سیکھا ہوگا اِس نے خالد صاحب سے!‘‘۔ ہوا کا شریر جھونکا لقمہ دیتا ہے اور پھرخوشبو کے ساتھ یہ جا وہ جا۔
اور میں کہتا رہ جاتا ہوں کہ میں نے ان سے بہت کچھ سیکھاہے۔میں نے سیکھا کہ شاعر کی زندگی اس کے شعر کی بقا کے ساتھ اور شعر کی بقا اس امر سے مشروط ہے کہ زندگی اُسے کب تک جِیتی ہے، پڑھنے والے کب تک خود کو اس شعر کی کیفیت سے ریلیٹ کرتے ہیں، اسے بسر کرتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں شعر کب تک ان کے اندر دھڑکتا رہتا ہے، کب تک ان کے ساتھ سانس لیتا رہتا ہے۔شاعر کا مستقبل اس کے اندر ہمہ وقت ہمکتی اس معصوم حیرت سے بندھا ہے جو مالکِ لوح و قلم سے درِ امکان تک رسائی کی سوالی ہے اوراس حیرت کو وقت اور دنیا کے ہاتھوں بچا لینا کوئی کارِ آساں نہیں۔ میں نے ان سے دعا کرنے کا سلیقہ سیکھا ہے:
کھلا مجھ پر در امکان رکھنا
مرے مولا مجھے حیران رکھنا
۔۔۔۔۔۔۔
یہی اک مرحلہ منزل نہ ٹھہرے
یہی اک مرحلہ آسان رکھنا
’’یہ سب تو کہنے کی باتیں ہیں۔ کیا واقعی تم نے کچھ سیکھا ہے ان سے؟کبھی ملے بھی ہو انہیں؟‘‘۔ پرندے کا استفسار۔
’’ہاں، ہاں، میں نے کہا نا کہ بہت دفعہ ملاہوں انہیں۔۔۔۔‘‘ میں جواب دیتا ہوں۔
’’بہت دفعہ؟۔۔۔ کہاں؟۔۔۔ کہاں ملے تھے وہ تمہیں؟۔۔۔ وہ تو کہتے ہیں:
کوئی پائے تو مجھے کیا پائے
کھوئے رہنا ہے نشانی میری
یا پھر:
مجھ کو جاننے والے خالدؔ جان نہ پائیں گے
اس چکر میں نکلا ہوں میں، کتنے پھیروں سے
وہ ہر کسی سے ملتے کہاں تھے۔ مل کر بھی نہیں ملتے تھے۔جو واقعی ان سے ملے وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے خالد صاحب کوکھویا ہوا پایا۔۔۔کسی تلاش میں۔۔۔شاید اچھے سے اچھے شعر کی تلاش میں۔۔۔۔بے چین اور مضطرب۔۔۔نازک اور گہرے خیال کے شایانِ شان اظہار کا دل کش سے دل کش پہناوا تراشنے کی فکر میں۔۔۔دوستوں کو نیا شعر کہنے پر ابھارتے ہوئے، انھیں خبردار کرتے ہوئے کہ شہرت کی چوٹی سر کرنے کی خوش فہم عجلت میں کہیں فن کے سمندر کی صبر آزما گہرائی نظر انداز نہ ہوجائے کہ چوٹی پر پہونچ کر سوچو یہ سب مشقت آخر کی کس لیے تھی؟ کیا محض اس خیالِ خام کے تعاقب میں کہ اس طرح ہمارا قد بڑھ جائے گا! اس پیغام پر پہونچ کر ان کی مسکان اور تشویش دونوں بہت گہری ہوجاتیں۔ جھوم کرکہتے:
دیکھنا یہ ہے کہ ہم کیوں سرِ کہسار آئے
قد بڑھانے اگر آئے ہیں تو بیکار آئے‘‘
’’چلو مانا تم دیکھتے رہے ہو، سنتے رہے ہو، ملتے رہے ہو اور پڑھتے رہے ہو انہیں۔ یہ بتاؤ تم نے انہیںسمجھا بھی؟ جانا بھی؟‘‘ شفق کے سمٹتے بکھرتے رنگوں سے وداع لیتے ہوئے شام کا سورج مجھ پر طنز کرتا ہے۔
اس سے پہلے کہ میں کچھ کہوں ایک سنہری لہر تاریک ہوتی جھیل سے اچھل کر ڈوبتے سورج سے مخاطب ہوتی ہے: ’’کیا بات کرتے ہو،میرے عزیز! تم تھک گئے ہو۔ جاؤآرام کرو یا اہلِ مشرق کی خبر لو۔کیا تم نہیں جانتے کہ ذرائع ابلاغ کی دیوانہ گر تیزرفتاری اور سماجی روابط کے سنہری جال نے خود فروغ سہل انگاری اور تشہیرحاصل عجلت پسندی کی راہیں کچھ یوں ہموار کردی ہیں کہ اب کسی کے پاس سوچنے کی آسائش یا آزمائش کے لیے وقت ہی کہاں بچتا ہے! شہرت کی بلندی اور فن کی گہرائی میں انتخابی ترجیح پر سوچنے کی فرصت کہاں! ان کا خاؔلد احمد سے کیا تعلق واسطہ بھلا!۔۔۔کہ وہ تو اتنا اعلیٰ اور باکمال لکھنے کے باوصف باندازِ التجا و دعا، بصد عجزونیاز’’اعتراف‘‘ کرتے ہیں:
میرے مولا! مجھے کچھ بھی نہیں آتا
بات کرنے کا ہنر شعر سنانے کا سلیقہ
میرے وارث! مرا سینہ ترا گھر ہے
میرے محسن! ترا گھر باب کشا ہے
کوئی آئے مرا دل باب کشا ہے
لفظ بھوبھل کی تہیں ہیں
سچ تو یہ ہے مری بھوبھل مری بے جان محبت کی طرح غم سے تہی ہے۔
کہاں وہ اور کہاں یہ!کیاتمہیں لگتا ہے اس نے کبھی اِس شعر پر غور بھی کیا ہوگایا کبھی کرے گا:
دیکھنا یہ ہے کہ ہم کیوں سرِ کہسار آئے
قد بڑھانے اگر آئے ہیں تو بیکار آئے‘‘
’’قد بڑھانے اگر آئے ہیں تو بیکار آئے۔۔۔!‘‘ اس سے پہلے کہ اِس بار کوئی اور بات اچک لے میں فوراً کہتا ہوں۔ ’’میں خاؔلد احمد کا مداح ہوں، مجھے اُن کی شاعری سے محبت ہے اور میں نے۔۔۔میں نے تہیّہ کرلیا ہے کہ پہلی فرصت میں سوچوں گا، غور کروں گا اس شعر پر بھی۔‘‘
’’پہلی فرصت۔۔۔! وہ کب ملے گی تمہیں؟‘‘ ایک مشترکہ سوال۔
’’بس جلد۔۔۔ بہت جلد۔۔۔ اِک ذرا فیس بُک پر تازہ غزل لگالوں، ادبی جریدے کے مدیر کو توصیفی پیغام ای میل کردوں، اپنے ساتھ منائی جانے والی فاصلاتی شام کے لیے دنیا بھر سے احباب کو مدعو کر لوں، تدریسی مقالے کے لیے مہربان پروفیسردوست کو اپنی کتابیں بھجوا دوں اورہاں، یاد آیا وہ ٹورانٹو کے جنوب ایشیائی ٹی وی چینل کے لیے انٹرویو کا وعدہ۔۔۔۔!بس۔۔۔ پھر بس۔۔۔وقت ہی وقت ہے خاؔلد احمد کی اس بہت کام کی بات پر سوچنے کا۔ بھئی واااہ۔ کیا کہنے!:قد بڑھانے اگر آئے ہیں۔۔۔۔ تو بیکار آئے۔کیا کاٹ دار مصرعہ ہے۔ وااااہ۔۔۔کہا نا کہ میں خاؔلد احمد کا مداح ہوں۔اچھے مصرعہ کی پہچان ہے مجھے۔۔۔ایسی بات نہیں!‘‘
میری بات پر جانے چارسو خاموشی کیوں چھا گئی ہے!
’’یہ خاموشی کیسی!؟۔۔۔کوئی بتائے گا مجھے کیا!؟‘‘ میں اِدھر اُدھر دیکھتے ہوئے رُک رُک کرکہتا ہوں۔ مگر وہاں تو کوئی بھی نہیں، کچھ بھی نہیں۔۔۔سب چلے گئے، ایک خاموش اور اجنبی تنہائی کے سوا۔۔۔
میرا دایاں پاؤں غیر ارادی طور پر آگے بڑھتا ہے ۔۔۔ جھیل کی طرف۔ بایاں پاؤں اس کی پیروی کرتا ہے۔ کنارے پر کھڑے کھڑے ذرا سا جھک کر پانی کے اندرجھانکتا ہوں۔ یہ کیا! وہاں تو رونق لگی ہے۔ دیکھی بھالی رونق، دیکھا بھالا منظر:
ایک منظر ہے تہہِ آب رواں دیکھا ہوا
اس سے پہلے کہ یہ منظر مجھے اپنے اندر جذب کرلے سیل فون کی گھنٹی بج اٹھتی ہے۔
’’گھر کب آرہے ہیں؟ رات ہونے کو آئی ہے۔ سب کھانے پر آپ کا انتظار کررہے ہیں۔ جلدی آئیے نا پاپا۔آپ کا لاڈلا ایانؔ بھی آیا ہوا ہے۔ سیر کو نکل جائیں تو گھر کا تو گویا رستہ ہی بھول جاتے ہیں آپ‘‘۔‘‘ رابعہ بیٹی نے ایک ہی سانس میں یہ سب کہہ دیاہے۔
ارد گرد ایستادہ اونچے اونچے، بوڑھے پیڑوں کی شاخوں میں چُھپے کچھ کوّے اچانک اُڑان بھرتے ہیں اورمیری چندیا کا راز چھپاتی گولف کیپ کو چھوتے ہوئے گزر جاتے ہیں۔ میں بڑبڑاتا ہوں:
کوئی اپنے گھر کا رستہ بھول سکا ہے کبھی؟
کیا جانے کیوں اُڑ اُڑ جائیں کاگ منڈیروں سے
’’اچھا، اگر منڈیروں سے سب کاگ اُڑ گئے ہوں تو پلیزاب گھر آجائیے۔ہم بھی کوئی دانا دنکا چُگ لیں۔‘‘ وہ ہنستی ہے۔
’’آ رہا ہوں۔۔۔‘‘ میرے ہونٹوں پر بھی مسکان پھیل جاتی ہے اور قدم آہستہ آہستہ پارکنگ ایریا کی طرف بڑھنے لگتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔